سچ خبریں:2024 غزہ کے 20 لاکھ فلسطینیوں کے لیے نسل کشی، بمباری اور معاشی تباہی کا سال رہا ہے، غزہ کے عوام عالمی برادری کی نظروں کے سامنے بدترین انسانی بحران کا سامنا کر رہے ہیں، جہاں حملوں کے علاوہ شدید معاشی مشکلات بھی ان کی زندگیوں کو تباہ کر رہی ہیں۔
محاصرے اور نسل کشی
پچھلے 15 ماہ سے جاری صیہونی نسل کشی کی جنگ اور شدید محاصرے نے غزہ کے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے، ضروری اشیا اور خوراک کی ترسیل پر پابندیاں عائد ہیں جس سے روزمرہ کی زندگی کی لاگت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل نے غزہ کے عوام پر کتنے وزنی بم گرائے ہیں؟ نیویارک ٹائمز کی زبانی
قابض حکومت غزہ کی سرحدوں، خاص طور پر رفح کراسنگ پر کڑی نگرانی کر رہی ہے، روزانہ صرف 50 ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے، جبکہ جنگ سے پہلے غزہ کے عوام کو روزانہ 500 ٹرکوں کی ضرورت تھی۔
روٹی پکانے والے تنور بند
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امداد نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے عوام کے لیے خوراک کا واحد ذریعہ تنور تھے جو آٹے اور ایندھن کی شدید قلت کی وجہ سے بند ہونے کے قریب ہیں۔
محاصرے کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی عدم دستیابی نے قیمتوں کو آسمان تک پہنچا دیا ہے، اور لوگ مہنگے داموں اشیاء خریدنے پر مجبور ہیں، جبکہ قیمتوں پر قابو پانے کے لیے کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔
مہنگائی اور غذائی عدم تحفظ
حکومتی کوششوں کے باوجود غزہ میں مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے، جس سے 20 لاکھ بے گھر اور محصور فلسطینیوں کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے، غزہ کے رہائشی، جو پہلے 365 کلومیٹر کے رقبے میں رہتے تھے، اب صرف 35 کلومیٹر کے علاقے میں محصور ہو چکے ہیں۔
490 فیصد لاگت میں اضافہ
فلسطینی مرکزی ادارہ شماریات کے مطابق، قابضوں کی مسلسل جارحیت کے بعد غزہ میں زندگی کی لاگت میں 490 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس نے پہلے سے بدحال عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ غزہ کے عوام انسانی بحران اور عالمی بے حسی کے درمیان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
معیشتی بحران: غربت اور بھوک کی شدت
غزہ میں جاری انسانی بحران نے وہاں کے عوام کی زندگیوں کو تقریباً مفلوج کر دیا ہے۔
صیہونی حکومت کی مسلسل نسل کشی اور اقتصادی ناکہ بندی نے غزہ کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے جبکہ غربت کی شرح 90 فیصد اور غذائی عدم تحفظ کی سطح بھی اتنی ہی زیادہ ہو چکی ہے۔
جنگ کے باعث بے روزگاری
غزہ کے زیادہ تر رہائشی صیہونی جارحیت کی وجہ سے بے روزگار ہو چکے ہیں، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 سے ستمبر 2024 تک غزہ کی معیشت میں 86 فیصد کمی واقع ہوئی، تمام رہائشی کسی نہ کسی حد تک غربت سے متاثر ہیں جبکہ روزانہ کی ضروریات پوری کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔
قحط
امجد الشوا، صدر نیٹ ورک آف نان گورنمنٹل آرگنائزیشنز، نے العربی الجدید کو بتایا کہ شمالی غزہ کے علاقے شدید قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قلت اور قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے باعث مرکزی اور جنوبی غزہ میں تنور بند ہو چکے ہیں، جہاں لوگ اب بنیادی خوراک سے بھی محروم ہیں۔
عوام کی بنیادی ضروریات اور امداد کی قلت
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں پہنچنے والی امداد عوام کی ضروریات کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ پورا کرتی ہے، ہر شخص کو یومیہ صرف ایک چھوٹا نان فراہم کیا جا رہا ہے، جبکہ اشغالگر طاقتیں غذائی اشیاء، ادویات، پانی اور دیگر بنیادی سامان کی ترسیل کو روک رہی ہیں، اور منظم طریقے سے غزہ کی اقتصادی اور سماجی ڈھانچے کو تباہ کر رہی ہیں۔
زراعت اور معیشت کی تباہی
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، غزہ کے 1.8 ملین لوگ شدید بھوک کا شکار ہیں، اور 70 فیصد زرعی زمین اور وسائل صیہونی حملوں کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہیں، جو سامان غزہ پہنچتا بھی ہے، وہ بہت محدود مقدار میں ہوتا ہے اور انتہائی مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔
شدید مہنگائی اور ممکنہ حل
فلسطینی صحافی اور ماہر معیشت احمد ابو قمر کے مطابق، قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے باعث مہنگائی 490 فیصد تک پہنچ گئی ہے اس لیے کہ جنگ سے پہلے جو ٹرک غزہ پہنچتے تھے، ان کا صرف 10 سے 13 فیصد ہی اب غزہ میں داخل ہو رہا ہے۔
مزید پڑھیں: غزہ کے عوام پر 85 ہزار ٹن بم گرا؛ 1760 شہید
انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل وسیع پیمانے پر امدادی سامان کی درآمد، اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کی روک تھام، اور امدادی ٹرکوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔
موجودہ حالات میں غزہ کو روزانہ کم از کم 400 امدادی ٹرکوں کی ضرورت ہے تاکہ مہنگائی کو کم کیا جا سکے اور عوام کو ریلیف فراہم کیا جا سکے۔