عراق کی فہرستِ دہشت گردی میں انصارالله اور حزب‌الله کا اندراج؛ غلطی یا دباؤ ؟

عراق کی فہرستِ دہشت گردی میں انصارالله اور حزب‌الله کا اندراج؛ غلطی یا دباؤ ؟

?️

سچ خبریں:عراق کی جانب سے جاری کی جانے والی دہشتگردی کی سرکاری فہرست میں انصارالله اور حزب‌الله کا نام شامل ہونے پر شدید سیاسی ہنگامہ برپا ہوا۔ حکومت نے چند گھنٹوں بعد اسے غلطی قرار دیا، مگر اس اقدام کے پسِ منظر میں بیرونی دباؤ اور اندرونی اختلافات کے امکانات پر سوالات برقرار ہیں۔

عراق کی فہرستِ دہشت گردی میں انصارالله یمن اور حزب‌الله لبنان کا نام سامنے آتے ہی ملک شدید سیاسی تناؤ کا شکار ہوگیا اور اندرونِ ملک سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔ چند گھنٹوں کے اندر حکومت نے اس فیصلے کو غلطی قرار دے دیا، لیکن اس تنازعے کے گرد شکوک و شبہات بدستور موجود ہیں۔

یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب عراق کے سرکاری گزٹ الوقائع العراقیہ میں دہشتگردوں کے اثاثے منجمد کرنے کے فیصلے نمبر 61 کی تفصیلات شائع ہوئیں، اس فہرست میں داعش اور القاعدہ سے منسلک اداروں اور افراد کے نام تو شامل تھے، لیکن حیران کن طور پر حزب‌الله اور انصارالله کے نام بھی موجود تھے، یہی نکتہ عراق کے سیاسی ماحول میں ایک بڑا دھماکہ ثابت ہوا اور چند ہی گھنٹوں میں ملک بھر میں بحث و تکرار چھڑ گئی۔

ابتدا اس وقت ہوئی جب عراقی میڈیا اور پھر عرب ٹی وی چینلز نے سرکاری گزٹ کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ دی کہ بغداد نے حزب‌الله اور انصارالله کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں، ایسے وقت میں جب عراق امریکی دباؤ، سیاسی اختلافات اور نئے وزیراعظم کے انتخاب جیسے چیلنجوں سے دوچار ہے، اس خبر نے سیاسی منظرنامے کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ تجزیہ کاروں نے امکان ظاہر کیا کہ شاید یہ اقدام عراق کی پالیسی میں کسی بڑے رخ کی تبدیلی کا اشارہ ہو۔

خبر سامنے آتے ہی عراق کی سوشل میڈیا فضا احتجاج سے بھر گئی۔ مزاحمتی دھڑے سے تعلق رکھنے والے ارکانِ پارلیمنٹ اور سیاسی شخصیات نے اس قدم کو رسوائی اور عراق کی سرکاری پالیسی سے انحراف قرار دیا۔ رکنِ پارلیمنٹ مصطفیٰ جبار سند نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عراق حزب‌الله اور انصارالله کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے جبکہ بعض قاتل امن کے لیے نامزد کیے جا رہے ہیں۔

تنقید بڑھنے کے بعد مرکزی بینک آف عراق نے فوری طور پر تردیدی بیان جاری کیا۔ بیان میں کہا گیا کہ عراق نے صرف انہی اداروں اور افراد کی منظوری دی تھی جو داعش اور القاعدہ سے براہِ راست منسلک تھے اور دیگر نام فہرست میں غلطی سے شائع شدہ غیر حتمی نسخے کی وجہ سے شامل ہو گئے۔ کمیٹی نے اعلان کیا کہ فہرست میں موجود غلطیوں کو درست کیا جائے گا اور ان ناموں کو حذف کر دیا جائے گا۔

وضاحتی بیان میں مزید بتایا گیا کہ ملائیشیا نے سلامتی کونسل کی قرارداد 1373 کے تحت عراق سے بعض افراد اور اداروں کے اثاثوں کی جانچ کا مطالبہ کیا تھا اور عراق نے صرف مخصوص ناموں کی توثیق کی تھی۔ لیکن سرکاری گزٹ میں شائع شدہ متن حتمی جائزے سے پہلے جاری ہو گیا، جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔ تاہم متعدد مبصرین اس وضاحت کو ناکافی قرار دیتے ہیں اور اسے دباؤ کے بعد پسپائی کا پردہ سمجھتے ہیں۔

اسی دوران سابق وزیراعظم نوری المالکی کے ائتلاف دولتِ قانون نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا کہ فہرست کی اشاعت منسوخ کی جائے۔ اس اتحاد کا مؤقف تھا کہ عراق خطے میں اہم کردار ادا کرنے والے گروہوں کو بغیر جامع تحقیق فہرستِ دہشت گردی میں نہیں ڈال سکتا۔ بغداد میں بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اندرونی سیاسی دباؤ، چارچوبِ ہم آہنگی کے اعتراضات اور مسلح گروہوں کے ردعمل کے خدشات نے حکومت کو پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔

عربی میڈیا بشمول شفق نیوز، السومریہ اور الاخبار نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اثاثے منجمد کرنے والی کمیٹی نے یہ اقدام بین الاقوامی تقاضوں، FATF کے معیار اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق قراردادوں کی تکمیل کے تناظر میں کیا تھا۔ مگر سیاسی اور عوامی دباؤ بڑھنے پر حکومت کو مؤقف بدلنا پڑا اور صرف داعش اور القاعدہ سے منسلک ناموں کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا گیا۔

تاہم کئی بنیادی سوالات اب بھی موجود ہیں:
پہلا یہ کہ حزب‌الله اور انصارالله جیسے گروہوں کے نام ابتدائی نسخے میں شامل ہی کیوں تھے؟
دوسرا یہ کہ کس ادارے نے اشتباہی متن سرکاری گزٹ میں شائع کیا اور یہ غلطی کیسے بغیر نگرانی کے سامنے آئی؟
تیسرا یہ کہ کیا امریکہ کا دباؤ—جو حالیہ مہینوں میں ایران کے اتحادی گروہوں کی مالی طاقت محدود کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے—اس عمل کے پیچھے کارفرما تھا؟

اگرچہ حکومت نے باضابطہ طور پر اس فیصلے سے لاتعلقی اختیار کر لی ہے، مگر کئی مبصرین اسے دباؤ کے بعد پسپائی سے تعبیر کرتے ہیں۔ داخلی سیاسی کشمکش، مزاحمتی گروہوں کا شدید ردعمل اور عراق کی حساس علاقائی پوزیشن نے حکومت کو ایک ایسے فیصلے سے قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور کیا جو وسیع سطح پر بحران پیدا کر سکتا تھا۔

یہ واقعہ اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ عراق کی داخلی سیاست بیرونی دباؤ اور علاقائی حالات کے مقابلے میں کس قدر کمزور ہے۔ ساتھ ہی یہ دکھاتا ہے کہ ایک معمولی انتظامی فیصلہ بھی کس طرح ایک بڑے سیاسی بحران میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ حکومت کے تردیدی بیان کے باوجود یہ معاملہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا اور عراق کے پیچیدہ سیاسی و سیکورٹی حالات کا ایک نمایاں اشارہ بن کر باقی ہے۔

مشہور خبریں۔

ہر روز حماس کے ایک ممتاز قیدی کو پھانسی دی جانی چاہیے!: بن گوئر

?️ 19 دسمبر 2023سچ خبریں:صیہونی حکومت کے وزیر اٹمر بن گویر نے اعلان کیا کہ

ریلوے نیٹ ورک ورکرز کی ہڑتال نے برطانوی ٹرانسپورٹ سسٹم کو زمین بوس کیا

?️ 4 فروری 2023سچ خبریں:کام کے نامساعد حالات اور کم اجرتوں کے خلاف دیگر 14

بن سلمان کے خلاف فوجی بغاوت ہونے والی ہے: سعودی حزب اختلاف کے رکن

?️ 27 جنوری 2021سچ خبریں:سعودی حکومت کے ایک مخالف نے دستیاب شواہد کا حوالہ دیتے

حماس اور اسلامی جہاد کا مغربی کنارے میں 2 فلسطینی نوجوانوں کی پھانسی پر ردعمل

?️ 14 نومبر 2025سچ خبریں: فلسطینی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے جمعرات کی رات جاری ایک

واشنگٹن اور ایتھنز کا مقابلہ ماسکو سے ہوگا: بائیڈن

?️ 17 مئی 2022سچ خبریں:  Kyriakas Mitsotakis کے پریس دفتر نے ایک بیان میں کہا

مصر نے اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے موقف پر عرب اسلامی ممالک سے کیا کہا؟

?️ 2 جنوری 2024سچ خبریں: مصری اخبار نے غزہ کے مظلوم عوام کے لیے جنوبی

غزہ کی پٹی سے اسرائیل کی ذلت آمیز شکست کے 16سال مکمل

?️ 15 اگست 2021(سچ خبریں) غزہ کی پٹی سے اسرائیل کی ذلت آمیز شکست کو

کراچی آرٹس کونسل میں 38 روزہ ورلڈ کلچر فیسٹیول کا آغاز

?️ 1 نومبر 2025کراچی: (سچ خبریں) آرٹس کونسل آف پاکستان میں دوسرے ورلڈ کلچر فیسٹیول

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے