سچ خبریں: روسی صدر کے خصوصی ایلچی سے ملاقات میں شامی صدر نے کہا کہ امریکہ اور مغرب نے عالمی سطح پر سیاسی اور اقتصادی بحران نیز عدم استحکام پیدا کیا۔
شام کے صدر بشار اسد نے منگل کی شام روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے خصوصی ایلچی الیگزینڈر لاورینٹینوف اور ان کے ہمراہ آنے والے وفد کی میزبانی کی۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا نے اطلاع دی ہے کہ اس ملاقات میں اسد اور لاورینٹینوف نے شامی پناہ گزینوں کی واپسی اور اس سلسلے میں اٹھائے گئے اقدامات نیز ان خیالات اور تجاویز پر تبادلہ خیال کیا جو اس مسئلہ کے حل کے لیے عرب اور بین الاقوامی ممالک کی سطح پر اٹھائے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: روس کا مغربی ممالک پر یوکرین جنگ کو طول دینے کا الزام
یاد رہے کہ یورپی کمشنر برائے انسانی امداد اور شہری تحفظ نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا کہ اردن میں شامی پناہ گزینوں کی تعداد 660000 ہے جن میں سے 66% غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
ان اعدادوشمار کے مطابق ترکی اور لبنان کے بعد اردن سب سے زیادہ شامی مہاجرین کی میزبانی کرتا ہے،فریقین نے شامی سرزمین سے انخلاء میں ترکی کی ہٹ دھرمی اور دہشت گرد گروپوں کے زیر قبضہ علاقوں میں رہنے والے شامی شہریوں کو انسانی امداد فراہم کرنے پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
بشار اسد نے اس ملاقات میں کہا کہ امریکہ اور مغرب نے عالمی سطح پر سیاسی ، اقتصادی بحران پیدا کیا اور عدم استحکام پیدا کیا ہے، ان ممالک کا ہدف بین الاقوامی سطح پر روس کی پوزیشن اور اس کی موجودگی کو کمزور کرنا ہے جس کے لیے انہوں نے یوکرین کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ مغرب اور امریکہ پر یوکرین کے بحران کے ذریعہ معاش، سماجی اور اقتصادی اثرات گہرے ہورہے ہیں، کہا کہ روس کا مغرب اور امریکہ کے تئیں اپنے موقف میں استحکام ان عوامل میں سے ایک ہے جو کثیر قطبی دنیا کی پیدائش کا باعث بن سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: یوکرین کے لئے بھیجے گئے ہتھیار کہاں گئے؟
انہوں نے کہا کہ دنیا کے وہ ممالک اور اقوام جو اپنے فیصلوں میں اپنی خودمختاری، قومی مفادات اور آزادی کا دفاع کرنا چاہتے ہیں کثیر قطبی دنیا سے امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔
لاورینٹینوف نے اس بات پر بھی زور دیا کہ روس بھی شامی قوم کی سلامتی اور استحکام کی واپسی کے لیے اس ملک کی حمایت کرے گا اور شامی مہاجرین کی باوقار واپسی تک دونوں ممالک کے درمیان تعاون جاری رہے گا نیز روس اس معاملے کو سیاسی بنانے کے سخت خلاف ہے۔