یوکرین بحران جغرافیائی تبدیلی اور طاقت کے توازن میں تبدیلی کے دہانے پر

یوکرین

?️

سچ خبریں: یوکرین کا بحران اپنے تیسرے سال میں داخل ہوچکا ہے، اور اب یہ ایک ایسے موڑ پر پہنچ گیا ہے جسے بہت سے مبصرین "بڑی جغرافیائی تبدیلی کا پیش خیمہ” قرار دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں میں میدانی، سفارتی اور فوجی سطح پر ایسے واضح تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ یہ جنگ روس اور یوکرین کے دو طرفہ تنازع سے آگے بڑھ کر عالمی نظم اور طاقت کے توازن کے لیے ایک ساختی بحران بن چکا ہے۔
ٹرمپ کی پیوٹن کو دھمکی سے لے کر نیٹو کی جانب سے یوکرین کو روسی سرزمین کے اندر حملے کی اجازت تک، اور لتھوانیا میں نئے محاذ کے کھلنے کے خطرے سے لے کر اہم انفراسٹرکچر اور جوہری پلانٹس پر شدید حملوں تک، تمام واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نہ صرف جنگ بندی کے امکانات مزید کم ہوگئے ہیں، بلکہ عالمی طاقتوں کے درمیان بڑے تصادم کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔
یوکرین کے حالیہ ڈرون حملے، جن میں روس کے اہم فوجی اڈوں بشمول اسٹریٹجک بمبار طیاروں کے اڈے شامل ہیں، جنگ کے دھارے کو تبدیل کرنے والی تازہ ترین پیشرفت ہیں۔ اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک غیرمعمولی بیان میں خبردار کیا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن "آگ کے ساتھ کھیل رہے ہیں” کیونکہ ماسکو یوکرین پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ موقف، جو ایک طرف روس کو دھمکی بھی ہے اور دوسری طرف زیلنسکی کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کی کوشش، امریکہ کی یوکرین پالیسی میں واضح تقسیم کو ظاہر کرتا ہے۔
کیف (یوکرین کی حکومت) ان بیانات کو خاص تشویش کے ساتھ دیکھ رہی ہے، کیونکہ اس سے امریکہ کی حکمت عملی میں تبدیلی کا اشارہ ملتا ہے—”لا متناہی جنگ” سے مجبوری پر مصالحت” کی طرف۔ زیلنسکی کا ٹرمپ کے بیان پر سرد مہری کا ردعمل اور "یوکرین کے پیچھے ہونے والے خفیہ معاہدے” کے بارے میں انتباہ، کیف کی سیاسی مشروعیت کے بحران کو گہرا کرنے کی علامت ہے۔
نیٹو کے کچھ ممالک، بشمول امریکہ اور جرمنی، نے پہلی بار یوکرین کو مغربی ہتھیاروں سے روسی سرزمین کے اندر حملے کی اجازت دے دی ہے۔ اگرچہ اس فیصلے کو میڈیا میں محتاط انداز میں پیش کیا گیا، لیکن عملی طور پر یہ روس کی ایک اہم سرخ لکیر کو عبور کرنے کے مترادف ہے۔
خطرات میں اضافے کا امکان
ماسکو کا جواب فوری اور سخت تھا—پیوٹن نے خبردار کیا کہ اگر روسی سرزمین پر حملے جاری رہے تو "روس مغربی فیصلہ سازی مراکز کو نشانہ بنانے پر غور کرے گا”۔ خطرات کی اس سطح نے یوکرین جنگ کو ایک نئے مرحلے میں داخل کردیا ہے، جہاں پراکسی جنگ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر عدم استحکام کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔
یوکرین میں جاری تصادم کے علاوہ، روس نے لتھوانیا کے اشتعال انگیز اقدامات کے خلاف بھی سخت انتباہ جاری کیا ہے۔ "سوالکی کوریڈور” پر تنازع اور نیٹو ہتھیاروں کے کیلینن گراؤڈ کے قریب تعیناتی کے امکان نے بالٹک خطے میں دوسرے محاذ کے کھلنے کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔
ساتھ ہی، کچھ یورپی ذرائع نے روس کی جانب سے بالکان میں پوشیدہ نیٹ ورکس کو متحرک کرنے اور مغرب پر دباؤ بڑھانے کی بات کی ہے۔ اگر دوسرا محاذ کھل جاتا ہے، تو یوکرین بحران مشرقی یورپ میں ایک علاقائی جنگ میں بدل سکتا ہے، جس کے گہرے جغرافیائی اثرات مرتب ہوں گے۔
جوہری خطرات میں اضافہ
روس نے حال ہی میں یوکرین کے اہم انفراسٹرکچر بشمول بجلی گھروں، ریفائنریز، ایندھن کے ذخائر اور ریلوے لائنز پر نئے حملے شروع کیے ہیں۔ ساتھ ہی، زاپوریژیا جوہری پلانٹ کے قریب حملوں میں اضافے کی اطلاعات نے علاقائی جوہری تباہی کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔
مغربی میڈیا نے بھی روس کی جانب سے سرحدی علاقوں میں جوہری تیاریوں اور "ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی مشق” کی تیاریوں کی خبریں دی ہیں۔ یہ پیشرفتیں "جوہری روک تھام” کے نظریے کو عملی امکان میں بدل رہی ہیں، جس سے عالمی جغرافیائی محاسبے میں ایک نئی پیچیدگی پیدا ہوئی ہے۔
جغرافیائی تبدیلی کا آغاز
ان تمام واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب یوکرین صرف ایک فوجی بحران نہیں رہا، بلکہ یہ عالمی نظام میں ایک بڑی جغرافیائی تبدیلی کا نقطہ آغاز بن چکا ہے۔ اس تبدیلی کی کچھ اہم خصوصیات یہ ہیں:
1. مغربی اتحاد میں دراڑیں: نیٹو اور واشنگٹن کے اندر گہرے اختلافات سامنے آئے ہیں۔
2. مشرقی اتحادوں کا مضبوط ہونا: ماسکو اور بیجنگ کا اتحاد مزید مستحکم ہوا ہے۔
3. نئے عالمی کھلاڑیوں کا عروج: جنوبی ممالک طاقت کے معادلوں میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
4. بین الاقوامی نظم کی نئی تعریف: سلامتی، خودمختاری اور طاقت کے استعمال کے تصورات تبدیل ہورہے ہیں۔
یوکرین بحران اب اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں کوئی بھی غلط حساب پورے یورپ اور عالمی سلامتی کے ڈھانچے کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں ماسکو، واشنگٹن، برسلز اور کیف میں لیے جانے والے فیصلے نہ صرف اس جنگ کا انجام طے کریں گے، بلکہ عالمی نظم کی تشکیل کی سمت بھی متعین کریں گے۔
اس صورتحال میں، وہ ممالک جو طاقت کے بلاکس پر انحصار کرنے کے بجائے خودمختاری، توازن اور مزاحمت کی پالیسی اپناتے ہیں، وہ نئے عالمی نظام میں اہم مقام حاصل کرسکتے ہیں۔
موجودہ تبدیلیاں محض کسی ایک فریق کی فتح یا شکست کی علامت نہیں، بلکہ یہ ایک نئے کثیر قطبی عالمی نظام کی طرف پیشرفت کو ظاہر کرتی ہیں۔ ایک ایسا نظام جس میں روس، چین اور دیگر ابھرتی ہوئی طاقتیں سلامتی، معیشت اور سیاسی فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کریں گی۔
اس تناظر میں، بین الاقوامی سلامتی بھی نیٹو اور مغربی اتحاد کی محدود پالیسیوں سے آگے نکل کر علاقائی تعاون، کثیرالجہتی اور مزاحمتی ماڈلز کی طرف بڑھ رہی ہے۔ دوسرے الفاظ میں، نئے عالمی نظم کی مشروعیت طاقت کے بل پر نہیں، بلکہ طاقت کے توازن، خودمختاری کے احترام اور مساوی شراکت سے حاصل ہوگی۔

مشہور خبریں۔

زیڈ جنریشن فلسطین کو کیسے آزاد کرائے گی؟

?️ 7 اپریل 2023سچ خبریں:فلسطین کی زیڈ جنریشن صیہونیوں کے لیے حل کے بغیر ایک

لاہور: 9 مئی کے پرتشدد واقعات میں ملوث ملزمان کےخلاف چارج شیٹ نامکمل قرار

?️ 10 اکتوبر 2023لاہور: (سچ خبریں) انسداد دہشت گردی عدالت لاہور (اے ٹی سی) نے

افغان صدر اشرف غنی کا بڑا دعویٰ، کہا امریکا کو 2 سال پہلے ہی ملک چھوڑنے کا کہا جاچکا تھا

?️ 11 جولائی 2021کابل (سچ خبریں)  افغانستان میں ان دنوں افغان حکومت اور طالبان کے

متعدد صہیونی ہسپتال سائبر حملوں کا شکار

?️ 18 اکتوبر 2021سچ خبریں:صہیونی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ متعدد سائبر حملوں اور

عراق میں امریکی فوجی رسد کے قافلے پر حملہ

?️ 14 دسمبر 2021سچ خبریں:عراقی میڈیا ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ آج صبح عراق

صہیونی فوجی وفد سقطری میں تعینات

?️ 1 ستمبر 2022باخبر ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ صیہونی حکومت نے اپنے فوجی

جاپان کی کار ساز کمپنی ہونڈا  کا اہم اعلان

?️ 24 اپریل 2021ٹوکیو(سچ خبریں) جاپان کی کار ساز کمپنی ہونڈا نے  اپنی گاڑیوں کی

ہم پنجشیر مسئلے کا پرامن حل تلاش کر رہے ہیں:طالبان

?️ 23 اگست 2021سچ خبریں:طالبان ترجمان نے یہ کہتے ہوئے کہ اس گروپ کی افواج

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے