سچ خبریں: زیادہ تر صہیونی 7 اکتوبر کے بعد نیتن یاہو کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق صیہونی اخبار ہیوم نے اپنی ایک رپورٹ میں تاکید کی ہے کہ ایک سروے کے مطابق 57 فیصد اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد سے نیتن یاہو کی کارکردگی مناسب نہیں ہے۔
دوسری جانب لیکوڈ پارٹی سے تعلق رکھنے والے صیہونی حکومت کی کنیسٹ (پارلیمنٹ) کے رکن نے اس بات پر زور دیا کہ رفح میں مکمل فتح کے بارے میں نیتن یاہو کی کھوکھلی باتیں ایک دھوکے سے زیادہ کچھ نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونی معاشرے میں نیتن یاہو کی کیا حیثیت ہے؟
متان کہانہ نے کہا کہ نیتن یاہو اور ان کے ساتھی رفح کے بارے میں بات کرتے ہیں گویا اس شہر میں حماس کی تباہی اس حکومت کو فتح دلائے گی۔
اس سے قبل تحریک حماس کے سربراہ اسامہ حمدان نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جنگ کے بعد صیہونی حکومت کے ہاتھوں غزہ کی پٹی کی انتظامیہ کو کسی بھی طرح سے زیر بحث نہیں لایا جائے گا، اس سلسلے میں فیصلہ فلسطینیوں کی ذمہ داری ہے۔
حمدان نے نشاندہی کی کہ ہم کسی بھی حالت میں صہیونی دشمن کی شرائط کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے اور حماس کے رہنماؤں کا غزہ سے انخلاء ایک احمقانہ خیال ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک قابض حکومت ایک بھی قیدی کو رہا نہیں کر سکی ہے اور اس حکومت کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔
حماس کے اس رہنما نے کہا کہ قابض حکومت حالیہ اندرونی بحرانوں کے بعد اسرائیلی رائے عامہ کی نظر میں اپنا امیج بہتر کرنا چاہتی ہے۔
اسامہ حمدان نے کہا کہ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے حوالے سے صیہونی حکومت کے مطالبات قابل قبول نہیں ہیں اور اس حکومت کا حالیہ ردعمل بھی فلسطینیوں کے کم سے کم مطالبات بھی پورا نہیں کر رہا ہے جس کے بعد ہم نے ثالثی کرنے والے فریقین کو آگاہ کر دیا ہے کہ ہم اسے قبول نہیں کرتے۔
حمدان نے واضح کیا کہ نیتن یاہو جنگ کو ختم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ مذاکرات کی راہ میں تاخیر اور رکاوٹیں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے القسام بٹالینز کے نائب کمانڈر مروان عیسیٰ کے قتل کے حوالے سے صہیونی فوج کے دعوے کے بارے میں کہا کہ ہمیں ابھی تک اس حوالے سے القسام کمانڈروں کی طرف سے کوئی تصدیق موصول نہیں ہوئی ہے۔
اسامہ حمدان نے بیان کیا کہ صیہونی دشمن نے جنگ کے آغاز سے اب تک اپنے کسی بھی اہداف کو حاصل نہیں کیا اور صرف قتل و غارت گری کا ارتکاب کیا ہے۔
حمدان نے کہا کہ مزاحمتی رہنماؤں کے قتل سے ہم کمزور نہیں ہوں گے اور مروان عیسیٰ کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ غزہ کی نسل کشی میں ملوث ہے۔
دوسری جانب امریکی ویب سائٹ Politico نے اپنی ایک رپورٹ میں سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی قرارداد پر صیہونی حکومت کے ردعمل کے بارے میں امریکی حکام کے تبصروں پر بحث کی ہے اور اس سلسلے میں امریکی سینیٹ کے سینیٹر کرس مرفی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمیں یقین نہیں ہے کہ اسرائیل سلامتی کونسل کی قرارداد کی تعمیل کرے گا جبکہ اسے اقوام متحدہ کی اس کونسل کے فیصلوں کا پابند ہونا چاہیے۔
کرس مرفی کے مطابق امریکہ کو اسرائیل کو مزید ہتھیار نہیں دینے چاہئیں جب تک کہ غزہ کے لیے امداد بھیجنے میں پیش رفت نہ ہو، اس امریکی سینیٹر نے دراصل غزہ کے لیے امداد بھیجنے کی شرط پر اسرائیل کو ہتھیار بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس فلسطینی ذریعے کے مطابق صیہونی حکومت نے حماس کی طرف سے خاص طور پر قیدیوں کے معاملے میں تمام لچک دکھانے کے باوجود جذبہ خیر سگالی کے طور پر قیدیوں کی تعداد میں بہت زیادہ کمی کر دی ہے۔
ذرائع نے المیادین کو بتایا کہ قابض حکومت نے ایک تجویز پیش کی جس میں بے گھر لوگوں کو اقوام متحدہ کے زیر نگرانی شمالی علاقے میں خیموں میں منتقل کرنا شامل تھا، تاہم حماس نے اس تجویز کو مسترد کر دیا کیونکہ حماس اور مزاحمت کا اصرار ہے کہ بے گھر ہونے والے لوگوں کو اپنے گھر واپس بھیج دیا جائے۔
اس باخبر ذریعے نے مزید کہا کہ اسرائیل نے بے گھر ہونے والی خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی بتدریج اور مشروط واپسی کے لیے ایک تجویز پیش کی جس مین یہ تعداد 60000 سے زیادہ نہیں تھی جب کہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد 800000 سے زیادہ ہے۔
اس ذریعے نے المیادین کو بتایا اسرائیل نے جنگ بندی کا ذکر نہیں کیا اور ہجوم والے علاقوں سے پیچھے ہٹنے کے بارے میں کوئی واضح تجویز پیش نہیں کی۔
مزید پڑھیں: کیا صہیونی واقعی پسپائی اختیار کر رہے ہیں؟
واضح رہے کہ قابضین غزہ کی پٹی کے پورے شمال، مرکز، مشرق اور جنوب میں اپنی موجودگی باقی رکھنا چاہتے ہیں جبکہ حماس اور مزاحمتی تحریک کے دیگر عہدیدار غزہ کی پٹی سے اسرائیل کا مکمل انخلاء چاہتے ہیں نیز حماس غزہ شہر اور شمال میں UNRWA امدادی ایجنسی کی واپسی پر اصرار کرتی ہے جس کا اسرائیل انکار کرتا ہے۔