سچ خبریں: غزہ کے خلاف جنگ کے آغاز کو 200 سے زائد دن گزر جانے کے بعد موساد انٹیلی جنس سروس کے سابق سربراہ نے اس علاقے میں حماس کی طاقت کا اعتراف کیا۔
فلسطین الیوم نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق صہیونی انٹیلی جنس سروس (موساد) کے سابق سربراہ یوسی کوہن نے تاکید کی کہ مثالی الفاظ ہمیشہ آپریشنل یا اسٹریٹجک حقائق کو ظاہر نہیں کرتے۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونی آباد کار نیتن یاہو کے کس دعوے پر ہنستے ہیں؟
انہوں نے اعتراف کیا کہ صیہونی حکومت کے لیے غزہ کی پٹی میں تحریک حماس کی طاقت کو مکمل طور پر ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔
یاد رہے کہ یوسی کوہن کا یہ بیان صیہونی حکومت کی کابینہ کی کارکردگی کے بارے میں اس حکومت کے سابق عہدیداروں کی تنقید اور قابض فوج اپنے مقاصد کے حصول میں ناکامی کے خدشات کے پیش نظر رفح شہر پر فوجی حملے کے بے اثر ہونے کی مناسبت سے سامنے آیا ہے۔
ادھر غزہ کی پٹی میں صہیونی قیدیوں کے اہل خانہ نے تاکید کی کہ صیہونی حکومت کو رفح شہر پر حملے یا قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا چاہیے۔
انہوں نے تحریک حماس کے خلاف فوجی دباؤ کی ناکامی کی طرف اشارہ کیا اور تل ابیب کی کابینہ کے نقطہ نظر میں تبدیلی کا مطالبہ کیا۔
صیہونی قیدیوں کے اہل خانہ نے کہا کہ صیہونی حکومت کو غزہ کی پٹی میں جنگ ختم کرکے قیدیوں کی رہائی کی قیمت ادا کرنی چاہیے۔
یاد رہے کہ صیہونی حکومت کے شعبہ آپریشنز کے سابق سربراہ اسرائیل زیو نے اس سے پہلے رفح میں کسی بھی مہم جوئی کے بارے میں خبردار کیا تھا اور کہا تھا کہ رفح پر حملہ ایک خطرناک مہم جوئی ہے کیونکہ حماس نے وہاں ہمارے لیے ایک اسٹریٹجک فوجی اور سیاسی گھات لگا رکھی ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل کی حالت زار: سابق صیہونی وزیر خارجہ کی زبانی
دوسری جانب صہیونی تجزیہ نگار عاموس ہریل نے کہا کہ نئے تبادلے کے معاہدے کے بارے میں وہ بہت زیادہ پر امید ہیں، مصر نے اس حوالے سے مثبت اشارے بھیجے ہیں لیکن اگر اس بار موقع ہاتھ سے نکل گیا تو گانٹز اور آئزن کوٹ کو واپس پانے گھر جانا ہوگا۔