سچ خبریں:برطانوی وزیراعظم کے مستعفی ہونے سے ایک بار پھر یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں کہ ان کی جگہ کون آئے گا۔
برطانوی وزیر اعظم لز ٹیرس نے جمعرات کو 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں اپنے مایوس کن دور کا خاتمہ کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا، لز ٹیرس کے استعفیٰ سے ایک بار پھر کنزرویٹو پارٹی کی صدارت اور اس کے نتیجے میں برطانوی وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لیے نمایاں امیدواروں کے درمیان مقابلہ شروع ہو جائے گا جبکہ گزشتہ 4 ماہ میں یہ دوسرا انتخابی مقابلہ ہے۔
واضح رہے کہ 47 سالہ لِز ٹیرس جو صرف 45 دن اقتدار میں رہیں، اس وقت تک عہدے پر رہیں گی جب تک کہ کنزرویٹو پارٹی ان کا جانشین نامزد نہیں کرتی، تاہم پارٹی چیئرمین کے انتخاب کا عمل تیز رفتاری سے تقریباً 10 دنوں میں طے ہونا ہے،کنزرویٹو پارٹی کے سینئر قانون سازوں میں سے ایک گراہم بریڈی نے کہا کہ نامزد ہونے والوں میں سے ہر ایک کو پارلیمنٹیرینز سے 100 ووٹ حاصل کرنا ہوں گے اور یہ مقابلہ اگلے ہفتے جمعہ تک ختم ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ انتخابی دوڑ میں لز ٹیرس کے ہاتھوں شکست کھانے والے 42 سالہ رشی سونک کو اس بار وزارت عظمیٰ کے لیے اہم فرد تصور کیا جا رہا ہے حالانکہ ان کے لیے قدامت پسندوں کے درمیان اتفاق رائے حاصل کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے جبکہ لیبر پارٹی ایک بار پھر عام انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ بورس جانسن جن کی جگہ پر ٹیرس آئی تھیں، اس وقت ایک اور امیدوار ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دوڑ میں داخل ہونے کے لیے شرائط کو تول رہے ہیں، ان کے علاوہ برطانوی تجارتی سکریٹری کے بین الاقوامی امور کے سابق مشیر پینی مورڈنٹ، بورس جانسن کی حکومت کے دفاعی سکریٹری بین والیس اور موجودہ برطانوی خارجہ سیکرٹری جیمز کلیورلی دیگر سیاستدان ہیں جنہیں لِز ٹیرس کے ممکنہ متبادل کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔