سچ خبریں: 2017 میں فوجی کریک ڈاؤن کے بعد 730,000 سے زیادہ روہنگیا مسلمان میانمار کی راکھین ریاست سے فرار ہوئے تھے ۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی تنظیموں نے گزشتہ برسوں میں اس نسلی اقلیت کے ساتھ بدسلوکی پر تشویش کا اظہار کیا ہے قابل ذکر ہے میانمار کے سیاسی نظام میں تبدیلی کا روہنگیا مسلمانوں کی قسمت پر بہت کم اثر پڑا ہے۔
تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ کوئی بھی سیاسی گروہ، چاہے وہ آنگ سان ہوں یا اب اقتدار میں فوج، تشدد کے نتیجے میں ملک سے بھاگنے پر مجبور ہونے والے روہنگیا کی واپسی پر آمادہ نہیں۔
اگر یہ میانمار کے قانون کے خلاف ہے تو کیا باقی رہ جائے گا؟ ایک طرح سے انہوں نے اس حوالے سے اپنا موقف بیان کیا۔ نوبل امن انعام یافتہ بھی دسمبر 1998 میں ہیگ میں عدالت میں پیش ہوئے حکومت کے مسلمانوں کے ساتھ سلوک کے خلاف مقدمے کو نامکمل اور غلط قرار دیا اس عدالت میں اس نے آزادی کی جنگ لڑنے والے عسکریت پسندوں کو مسلمانوں کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
اگرچہ مسلم ممالک فوجی حکومت سے مسلمانوں کے ساتھ بہتر سلوک کی توقع رکھتے ہیں، لیکن جنتا کی اب تک کی کارکردگی کچھ اور ہی ظاہر کرتی ہے مثال کے طور پر ملک میں کورونا پھیلنے کے بعد بھی، ایسی اطلاعات تھیں کہ فوج روہنگیا اقلیت کو ویکسین دینے سے بھی گریزاں ہے جب کہ اگست میں فوج کی طرف سے 10,000 ترجیحی گروپوں کی ویکسینیشن آپریشن کا اعلان کیا گیا تھا اور ان میں سرکاری ملازمین اور بدھ راہبائیں بھی شامل تھیں، کوئی بھی مسلمان اس فہرست میں شامل نہیں تھا۔