سچ خبریں: سابق امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ ان کے خلاف نیویارک کی عدالت کا حالیہ فیصلہ من گھڑت الزامات کی بنیاد پر جاری کیا گیا اور مکمل طور پر سیاسی ہے۔
روئٹرز نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اثاثوں کی تشخیص میں دھاندلی کے حوالے سے نیویارک اسٹیٹ کورٹ کے حالیہ فیصلے کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد انتخابات میں مداخلت کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی خارجہ پالیسی کے بارے میں ٹرمپ کا نیا آئیڈیا
انہوں نے اس بارے میں کہا کہ ریاست نیویارک میں ایک دھوکے باز جج نے جو ایک کرپٹ اٹارنی جنرل کے ساتھ کام کرتا ہے، 355 ملین ڈالر کا جرمانہ صرف اس لیے لگایا کہ میں نے ایک بڑی کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔
ٹرمپ نے یہ کہتے ہوئے کہ وہ اپیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ نیویارک کی ریاستی عدالت کا فیصلہ ڈیموکریٹس کی ایک اور مثال ہے جو مجھے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔
امریکہ کے سابق صدر اور اس ملک کے آئندہ صدارتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے امیدوار کو گزشتہ روز کرپشن کیس میں 350 ملین ڈالر ہرجانے کی سزا سنائی گئی اور ان پر ریاست نیویارک میں 3 سال کے لیے کاروبار کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
نیویارک کی ریاستی عدالت کے جج نے ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی کمپنی کو کمپنی کے اثاثوں اور سرمائے کی حقیقی قیمت کے بارے میں غلط معلومات ریکارڈ کرنے اور فراہم کرنے کی وجہ سے 350 ملین ڈالر ہرجانے کی سزا سنائی ہے۔
عدالت کے فیصلے کے مطابق ٹرمپ کو 350 ملین ڈالر سے زائد حرجانہ ادا کرنا ہو گا اور ان پر 3 سال تک پبلک کمپنیوں میں انتظامی عہدوں پر رہنے پر پابندی ہے۔
نیویارک کی عدالت کے جج نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف استغاثہ کی جانب سے اثاثوں کے اعلان میں دھوکہ دہی کے الزام پر مبنی دائر کی گئی شکایت کا جائزہ لیتے ہوئے، امریکہ کے سابق صدر کو 354 ملین ڈالر سے زیادہ کا جرمانے کی سزا سنائی۔
مزید پڑھیں: امریکی ریپبلکن کی ٹرمپ کے بیانات پر تنقید
اس فوجداری مقدمے میں، نیویارک کے پراسیکیوٹر کے دفتر نے ریاستہائے متحدہ کے سابق صدر پر بینک قرضے اور ترجیحی انشورنس خدمات حاصل کرنے کے لیے اپنی جائیداد کی قیمت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور اس کی حقیقی قیمت کو غلط بتانے کا الزام لگایا۔