سچ خبریں:اسرائیلی وزیر اعظم کے اقتدار میں رہنے کے لئے حالیہ اقدامات ایسے وقت میں جاری ہیں جبکہ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی 12 سالہ حکمرانی کے اختتام کو پہنچ چکے ہیں اور وہ مقدموں ، قید اور ڈراؤنے خوابوں کے منتظر ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاھو کے اقتدار میں رہنے کے آخری خواب ایک کے بعد ایک غائب ہورہے ہیں اور جلد ہی صیہونی حکومت میں ایک ایسی کابینہ تشکیل دی جائے گی جو 12 سال بعد نیتن یاہو کی سربراہی میں نہیں ہو گی،تاہم نیتن یاھو اقتدار میں رہنے کے لئے کسی بھی آپشن کا سہارا لینے سے دریغ نہیں کریں گے ، جیسا کہ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ وہ کسی بھی بے وقوفی کا سہارا لے سکتے ہیں۔
لبنانی حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے گذشتہ ہفتے ایک تقریر میں کہا کہ فلسطین ، القدس اور مسجد اقصی میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں ایک شیطانی اور احمقانہ دشمن کا سامنا ہے جو اندرونی بحرانوں کے نتیجے بھاگنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں، نیتن یاہو آج اور بحرانوں میں شکست کھا رہے ہیں،وہ بحرانوں سے نکلنے کے لئے مختلف اختیارات اور حماقتوں کا سہارا لے سکتے ہیں، انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام کے معاملے کی دھمکی دی اور یروشلم میں احمقانہ حرکت کا ارتکاب کیا،نیتن یاہو کے اقتدار میں رہنے اور ٹرمپ کی طرح نہ ہونے کا آخری راستہ یہ ہےکہ وہ ایک سکیورٹی کے واقعے کا سہارہ لیں اور انتہا پسند صہیونی یہودیوں کے ذریعہ ، نئی کابینہ کی حمایت کرنے والے کنسیٹ کے رکن کو قتل کروادیں جیسا کہ اسحاق رابن کے ساتھ ہوا جب اسے ایگل نامی ایک انتہا پسند یہودی ایگل عمیر نے 1995 میں قتل کردیا،لیکن یہ راستہ بھی نیتن یاہو کے لئے بند کردیا گیا ہے کیونکہ کنسیٹ کے قانون سازوں کے لیےسخت حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں، دوسری طرف اس طرح کی کوئی بھی کاروائی اس بحران سے دوچار حکومت کو تباہی کے قریب لائے گی۔
صہیونی حکومت شکست کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اس کی شکست کا مرحلہ 2000 میں شروع ہوچکا ہے جس کے بعد 2005 میں غزہ کی جنگ، 2006 میں لبنان کی 33 روزہ جنگ ، سنہ 2008 ، 2009 ، 2012 اور2014 کی جنگوں میں شکست سے دوچار ہونا ہے،اسی طرح حالیہ یروشلم کی سیف القدس کی لڑائی میں 12 روزہ جنگ میں شکست بھی اس میں اضافہ ہوئی ہے۔
اس دوران فلسطینی مزاحمتی تحریک تنازعہ کے نئے قواعد قائم کرنے اور انہیں غاصبوں پر مسلط کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے،فلسطینی مزاحمتی تحریک کا ہاتھ ٹریگیر پر ہے ،وہ مقبوضہ بیت المقدس میں صہیونیوں کی ہر نقل و حرکت کی نگرانی کررہی ہے، فلسطینی مزاحمت کے ذریعہ جو مساوات تیار کی گئی ہیں وہ یروشلم کی حمایت کرنے کی مساوات ہے اور صیہونی حکومت کو سرخ لکیریں عبور کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔
ان تشریحات سے واضح ہوتا ہے کہ نیتن یاہو کا سیاسی مستقبل کھو چکاہے اور اس کی قسمت ایہود اولمرٹ کی طرح ہوگی ، جو 33 روزہ جنگ میں لبنانی مزاحمت کی شکست کے بعد مقدمے کی سماعت اور قید میں ختم ہوگئی جبکہ نیتن یاہو پر بدعنوانی کا مقدمہ چل رہا ہے اور صرف ان کی وزارت عظمیٰ اور استثنیٰ کی بدولت انہیں ابھی تک قید نہیں کیا گیا ہے،واضح رہے کہ وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹنے کے علاوہ نیتن یاھو لیکوڈپارٹی کی صدارت سے بھی محروم ہوجائیں گے ، خاص طور پر جب سےاس حکومت کے وزیر صحت ، یولی ایڈلسٹن نے لیکوڈ پارٹی کی سربراہی کے لئے گھات لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں،انھوں نےپارٹی کے ممبران سے بات کرتے ہوئے پارٹی کی نیتن یاہو کی جگہ لینے میں ان کی مدد کرنے کو کہا ہے۔
ان دنوں نیتن یاھو خوش نہیں ہیں اور ان کے حامی ایک کے بعد ایک اس کے اردگرد سے جارہے ہیں لہذا اب ان کی قسمت میں جیل ہی ہے،یہ بات بالکل واضح ہے کہ صیہونی حکومت ایک ایسے بحران میں داخل ہو چکی ہے جو روز بروز شدت اختیار کرتاجارہا ہے ، در حقیقت ، جمع شدہ بحران لمحہ بہ لمحہ اس حکومت کو تباہی کے قریب لا رہے ہیں،صہیونی جماعتوں کے مابین تقسیم ،تفرقہ، جنگیں اور تنازعات در حقیقت صہیونی معاشرے کا ٹکراؤ ظاہر کرتے ہیں،دوسری طرف مزاحمتی تحریک کے ہاتھوں ہر نئی شکست کے ساتھ اس حکومت کے اندرونی بحران کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہاہے ، خاص طور پر جب سے ان کی فوج تمام تر جدید ترین صلاحیتوں اور جنگ کے اوزاروں کے باوجود فتح حاصل کرنے کے قابل نہیں رہ گئی ہے۔
یادرہے کہ وہ حکومت جو غزہ میں مزاحمت کے قابل نہیں ہے وہ لبنانی مزاحمت کا مقابلہ کس طرح کرنا چاہتی ہے ، جو جنگ کے لئے غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل ہے؟ دوسرے الفاظ میں اگر صیہونی حکومت مزاحمت کے سارے محور کا سامنا کرنا چاہے تو اس کا کیا بنے گا؟آخر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ایران کے خلاف کاروائی کرنے کے بارے میں نیتن یاہو کے ذہن میں ذرا سی بھی حماقت آجاتی ہے تو یہ حقیقت میں صیہونی حکومت کی تباہی کا باعث بنے گی، دوسری طرف صہیونی نیتن یاہو کو اس حماقت کی اجازت نہیں دیتے ہیں کیونکہ وہ ابھی فلسطینی مزاحمت کے راکٹوں میزائلوں کے خوف سے اپنی پناگاہوں سے باہر نہیں آئے ہیں اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ مزاحمت کے محور کے میزائل حملوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔
بہرحال ، اتوار کو نیتن یاہو کا اقتدار ختم ہو جائے گا اور فلسطینیوں ، عربوں اور مسلمانوں کے خلاف ان کے تمام مجرمانہ اقدامات ختم ہوجائیں گے ، حالانکہ اس کے جانشین بھی ایسے مجرم ہیں جو فلسطینیوں ، عربوں اور مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں،یادرہے کہ نیتن یاہو کی معزولی کے ساتھ ہی خلیجی عرب ریاستوں میں ان کے اتحادی ایک اور اتحادی سے محروم ہوجائیں گے،صیہونی حکومت کے ساتھ دوستی اور سمجھوتہ کرنے والے شیخ اپنے اتحادی ، نیتن یاہو کو بالکل اسی طرح کھو دیں گے ، جیسے انھوں نے حال ہی میں امریکہ میں اپنے اتحادی ڈونلڈ ٹرمپ کو کھو دیا ۔