سچ خبریں:مقبوضہ علاقوں میں نئی کابینہ کی تشکیل کے لیے مذاکرات کا عمل مزید سنگین ہونے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ نیتن یاہو نے اتحادی کابینہ کی تشکیل کے لیے اپنے انتہا پسند اور نسل پرست اتحادیوں کے مطالبات کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ صیہونی حکومت کے پارلیمانی انتخابات میں نیتن یاہو کی فتح کے ساتھ ہی ہمیں اس حکومت کی تاریخ کی انتہائی سخت ترین کابینہ میں سے ایک کا مشاہدہ کرنا پڑے گا۔
لیکوڈ پارٹی کے اتحادی اسرائیل میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں ہیں، اور کنیسٹ اتحاد کی پارلیمانی اکثریت کو برقرار رکھنے میں چھوٹی پارٹیوں کی اہمیت اور فیصلہ ساز ہونے کی وجہ سے، نیتن یاہو ان جماعتوں کو تاوان دینے پر مجبور ہیں، تاہم اس صورتحال کو کئی دھڑوں اور اندرونی نیز بین الاقوامی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مثال کے طور پر ان دنوں جو لوگ سرخیوں میں ہیں ان میں سے ایک “یہودی طاقت” پارٹی کے رہنما ایتمار بینگوئیر ہیں جن کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ صیہونی حکومت کی وزارتوں میں سے ایک کی سربراہی کے لیے نیتن یاہو کا ساتھ دینے پر رضامند ہو گئے ہیں۔
واضح رہے کہ بینگوئیر کو عام طور پر ان کے نسل پرستانہ اور انتہا پسندانہ خیالات کے لیے یاد کیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ سیاست میں آنے سے قبل انہوں نے اپنے کمرے میں 29 فلسطینی نمازیوں کو شہید کرنے والے صہیونی دہشت گرد کی تصویر لگائی ہوئی تھی۔
بینگوئیر نے مقبوضہ علاقوں سے عربوں کو نکالنے کا مطالبہ کیا، ان کا خیال ہے کہ اسرائیلی پولیس کو ان فلسطینیوں کو گولی مار دینی چاہیے جو ان پر پتھراؤ کرتے ہیں، یاد رہے کہ صیہونی حکومت میں بھی انہیں نسل پرستی کی حوصلہ افزائی کے جرم کی عدالتی سزا ہوچکی ہے۔
دوسری جماعتیں جو صیہونی حکومت کی مستقبل کی کابینہ میں بااثر ہوں گی ان میں مذہبی صیہونیت پارٹی ہے جس کی نشستوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ صیہونی حکومت کی سیاسی فضا اور معاشرے میں اندرونی اختلافات کی شدت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔