سچ خبریں: آبزرور اخبار نے اپنے ایک کالم میں یمن پر واشنگٹن اور لندن کے حالیہ حملوں کو مشرق وسطیٰ میں مغرب کی مسلسل ناکامیوں اور اس خطے میں ایران کے عروج کا ایک اہم موڑ قرار دیا۔
برطانوی اخبار آبزرور کے کالم نگار نے لکھا کہ یمن میں ملیشیاؤں کے خلاف امریکی قیادت میں فضائی حملے مشرق وسطیٰ میں مغرب کی سیاسی ناکامیوں کے طویل راستے میں ایک اور مایوس کن موڑ ہے، جن میں سب سے اہم اسرائیل فلسطین تنازع کے حل میں دہائیوں کی طویل ناکامی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مغربی ایشیا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی
یہ حقیقت کہ امریکہ، برطانوی حمایت کے ساتھ، بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر یمنی حملوں کے جواب میں طاقت کے استعمال پر مجبور ہوا، ایک ناخوشگوار حقیقت کی عکاسی کرتا ہے: واشنگٹن کے سیاسی غبارے کی ہوا نکل رہے، اس کی سفارت کاری غیر موثر ہو رہی ہے، اس کا اختیار مجروح ہو رہا ہے جبکہ یمنیوں حملے جاری رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔
کشیدگی کا یہ تیز اور نہ ختم ہونے والا اضافہ ایک اور حقیقت کو بھی اجاگر کرتا ہے،مشرق وسطیٰ میں غالب طاقت اب امریکہ، مصر، سعودی عرب حتیٰ اسرائیل بھی نہیں بلکہ ایران ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے عجلت میں اسرائیل کے لیے غیر مشروط حمایت کا وعدہ کر کے اور اقوام متحدہ کے جنگ بندی کے منصوبے کو ویٹو کر کے دنیا (اور زیادہ تر امریکیوں) کو الگ کر دیا،مشرق وسطیٰ میں اس کی پالیسی پرانی اور حقیقت سے دور ہے،امریکہ عرب دنیا میں کبھی مقبول نہیں تھا اور اسے ایک ضروری برائی کے طور پر برداشت کیا گیا لیکن اب ایسا نہیں ہے،ایران نے معاملات کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
آبزرور کی اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کے تین اہم مقاصد ہیں: مشرق وسطیٰ سے امریکہ کو نکال باہر کرنا۔ علاقائی بالادستی کو برقرار رکھنا اور چین اور روس کے ساتھ اتحاد کو مضبوط کرنا جبکہ اسرائیل کی تباہی چوتھا مقصد ہے۔
تہران نے ہم خیال قوتوں کا ایک اتحاد بنایا ہے اور اسے دور سے کنٹرول کیا ہے تاکہ امریکہ کو سائیڈ لائن کیا جا سکے،یمنی ٹھکانوں پر بمباری اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرے گی اور غالباً پورے خطے میں تہران کے مغرب مخالف اور اسرائیل مخالف مزاحمتی بیانیے کی آگ کو ہوا دے گی۔
مزید پڑھیں: امریکی وزیر خارجہ بار بار مشرق وسطی کیوں دوڑے چلے آتے ہیں ؟
45 سال کی کوششوں کے بعد ایران اب خطے کی اہم طاقت بن چکا ہے،تہران پر پابندی عائد کرنے، مسترد کرنے اور دھمکی دینے سے کام نہیں ہوا،امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کو ایک مضبوط حریف کا سامنا ہے جو (روس اور چین کے ساتھ) ایک عالمی ٹرپل اتحاد کا حصہ ہے جسے طاقتور عسکری اور اقتصادی طاقت کی حمایت حاصل ہے،وسیع تر تنازعے سے بچنے کے لیے، ہمارے پاس ایک نیا سفارتی طریقہ ہے۔