سچ خبریں:حالیہ ہفتوں میں افغانستان سمیت خطے کے ممالک میں پیش آنے والی صورتحال کے بارے میں نہایت تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ امریکی فوج کے انخلا کے حیرت انگیز اعلان کا مطلب ہے کہ طالبان کو ملک کا کنٹرول سنبھالنے کی ترغیب دلائی جائے۔
سعید الشہابی نے ایک کالم میں مشرق وسطی میں امریکی فوجی موجودگی کو کم کرنے کے معاملے کا تجزیہ کرتے ہوئےاس سلسلے میں واشنگٹن کی نئی پالیسیوں کا ذکرکیا۔
1- حالیہ ہفتوں میں افغانستان سمیت خطے کے ممالک میں پیش آنے والی صورتحال کے بارے میں نہایت تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ امریکی فوج کے انخلا کے حیرت انگیز اعلان کا مطلب ہے کہ طالبان کو اس ملک کا کنٹرول سنبھالنے کی ترغیب دی جائے۔
2۔ امریکہ اب طالبان یا داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کو اپنی سرزمین کے لئے براہ راست خطرہ کے طور پر نہیں دیکھتا ہے اس کے باوجود اس نے مشرق وسطی میں اپنے مفادات کی نگرانی کی ہے اور اسے یقین ہے کہ ان کی حفاظت کے لئےاس خطہ میں مستقل فوجی موجودگی کی ضرورت نہیں ہے۔
3۔ امریکیوں میں اس یقین کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ پورے مشرق وسطی پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے ایک طاقت کا ابھرنا ممکن نہیں ہے اس لیے کہ ایران اور سعودی عرب اثر و رسوخ کے لئے مقابلہ کر رہے ہیں ،تاہم یہ ایک تزویراتی رقابت ہے اور اس کے لیے بڑی تعداد میں امریکی فوجی موجودگی کی ضرورت نہیں ہے۔
4۔ایران چین اسٹریٹجک شراکت داری بھی ایک تجارتی معاہدے کی طرح دکھائی دیتی ہے جس کے تحت چین کو کم قیمت پر ایرانی تیل تک رسائی حاصل ہوجاتی ہے اور امریکی حکمت عملی کے مطابق یہ ایسی شراکت میں تبدیل ہوجائیں گے جو براہ راست امریکی مفادات کو خطرے میں ڈالتا ہےجبکہ چین کے جی سی سی ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدے بھی ہیں جو سعودی عرب ، عراق اور ایران سے چین کو زیادہ تیل برآمد کرتے ہیں اور جی سی سی کے ممبران ایران سے کئی گنا زیادہ چین سے اسلحہ خریدتے ہیں۔
5۔خطے میں امریکی موجودگی کی ترجمانی کے لئے بہت سے مفروضے تھے جن میں سے بیشتر بدل چکے ہیں، ان میں سے ایک مفروضہ یہ بھی تھا کہ امریکہ تیل کی رساو کو یقینی بنانے ، اسرائیل کی مدد کے لئے اور ایک علاقائی یا بین الاقوامی طاقت جو خطے پر غلبہ حاصل کرنے اور امریکی مفادات کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کرے گی، کو ابھرنے سے روکنے کے لئے خطے میں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھے گا ۔