سچ خبریں:صیہونی عدالت عظمی بے بنیاد بہانوں سے فلسطینیوں کی شہریت منسوخ کرنے کے در پے ہے۔
اسرائیلی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ ریاست ایسے لوگوں کی شہریت واپس لے سکے گی جن کے کام ریاست پر بھروسے کے منافی ہوں،ان میں ایسے لوگ شامل ہو سکتے ہیں جو دہشت گردی میں ملوث ہوں، ملک کے خلاف جاسوسی میں ملوث ہوں یا بغاوت کے مرتکب ہوں۔
صیہونی سپریم کورٹ کا یہ حکم 2008 کے قانون شہریت کے حوالے سے سامنے آیا ہے جو ریاست کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ کسی فرد سے ملکی شہریت واپس لے لے جس کے اعمال اور کام ملکی وفاداری کے خلاف ہوں،اسرائیلی عدالت نے یہ فیصلہ دو فلسطینیوں سے متعلق کیس میں سنایا ہے جنہیں اسرائیلی شہریوں کے قتل کے جرم میں سزا سنائی جا چکی تھی،ان دونوں کو لمبی سزائیں ہو چکی تھں جبکہ صیہونی حکومت ان فلسطینیوں کی شہریت ہی واپس لے لینا چاہتی تھی۔
تاہم سپریم کورٹ نے ان دو کیسز میں حکومت کے حق میں فیصلہ دینے سے انکار کر دیا تھا، اس انکار کی وجہ سنگین نوعیت کے پروسیجرل غلطیاں پائی جاتی تھیں، لیکن اسی عدالت نے اب یہ کہہ حکم جاری کیا ہے کہ دونوں فلسطینیوں کا یہ عمل بجائے خود ایسا ہے کہ اس کے نتیجے میں کوئی حکومت شہریت ختم کر سکتی ہے،فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس طرح کے کیس کی صورت میں وزیر داخلہ مستقل ریزڈنسی دے سکتا ہے۔
اس فیصلے پر ایسوسی ایشن فار سول رائٹس ان اسرائیل اور عرب حقوق کے لیے متحرک ادارے عدالہ مشترکہ بیان پر اپنے ردعمل میں اسے یہ قانونی امتیازکے مترادف ہے،یہ فیصلہ عام طور پر صرف اسرائیلی شہریت کے حامل فلسطینی شہریوں کے خلاف استعمال ہو گا۔
بیان میں مزید کہا گیا ‘ اسرائیل میں یہودیوں کے بھی کافی مقدمات ہیں جن میں انہوں نے دہشت گردی کا ارتکاب کیا لیکن ان کے معاملے میں کبھی بھی اور کسی ایک معاملے میں بھی صیہونی وزارت داخلہ نے اپیل تک نہ کی کہ ان کی بھی شہریت ان سے واپس لے لی جائے جبکہ وزارت داخلہ نے شہریت واپس لینے کے کیس صرف عربوں کے خلاف عدالت میں دائر کیے۔