سچ خبریں: غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف نرم رویہ اختیار کرنے والے عرب حکمرانوں کی عدم موجودگی میں مسلم علماء نے اس قسم کی رواداری کو کنارے رکھ کر اپنے فتووں کے ذریعے اسلامی اور غیر اسلامی اقوام سے غزہ کی مظلوم عوام کی حمایت کرنے کی اپیل کی ہے تاکہ دنیا یہ نہ سمجھے کہ مسلمان، القدس اور مسجد اقصیٰ کو بھول کر صہیونی دشمن کے سامنے پیش کر چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’فوری جنگ بندی کی جائے‘، فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف سینیٹ میں مذمتی قرارداد منظور
مسئلہ فلسطین نے ایک بار پھر دنیا کے گوشے گوشے کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور دنیا بھر میں لاکھوں لوگ صیہونی حکومت کی فوجی، سیاسی اور اقتصادی طور پر حمایت کرنے والی بعض مغربی حکومتوں کے موقف کے باوجود غزہ کی خواتین اور بچوں کے خلاف صیہونیوں کے وحشیانہ جرائم کی مذمت کرتے ہیں، اس دوران رائے عامہ کو آگاہ کرنے میں شیعہ اور سنی دونوں ہی مسلم علماء کا کردار بہت نمایاں رہا ہے، انہوں نے غزہ میں نسل کشی روکنے پر زور دیا ہے۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلے ایک آیت اللہ سید علی سیستانی کا موقف سامنے آیا جہاں انہوں نےغزہ پر اسرائیل کے حملوں کے پہلے دنوں میں عراقی شیعوں کے ان مرجع تقلید نے ایک بیان جاری کیا جس میں دنیا سے قابض حکومت کی بربریت کا مقابلہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ پوری دنیا کو اس قابضین اور حملہ آوروں کے اس گھناؤنے ظلم کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے ۔
السومریہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ سیستانی نے اپنے بیان میں کہا کہ قابض حکومت کے حملوں کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہوچکے ہیں جبکہ غزہ میں عام شہریوں کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں بچی،اس بیان میں کہا گیا ہے کہ صیہونی حکومت کے جرائم پوری دنیا کے عوام کی آنکھوں کے سامنے ہورہے ہیں لیکن ان جرائم کی روک تھام کے لیے کوئی تدبیر نہیں جا رہی ہے،قابضین کو اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے اور مظلوم فلسطینی قوم کی نسل کشی کی اجازت نہیں دینی چاہیے،آیت اللہ سیستانی نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق کی فراہمی اور قبضے کا خاتمہ ہی خطے میں سلامتی کے حصول کا واحد راستہ ہے، بصورت دیگر جارحوں کے خلاف مزاحمت جاری رہے گی۔
مصر کی الازہر یونیورسٹی نے جو تاریخی طور پر سنیوں کے درمیان فقہ اور فتویٰ کے اظہار میں بہت اہم مقام رکھتی ہے، فلسطینی مزاحمت کے نام ایک پیغام میں انہیں ہیرو قرار دیا جو دہشت گرد فوج کا سامنا کر رہے ہیں،رائے الیوم اخبار کے مطابق الازہر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ خدا کی رحمت ہو فلسطینی مزاحمت پر غزہ کے عوام پر اور صبر کرنے والے بچوں اور خواتین پر جو وقار اور استحکام کی علامت ہیں، سلام ہو آپ پر جو دہشت گرد فوج کے ہاتھوں لگائی گئی آگ کا سامنا کر رہے ہیں،وہ فوج جو اخلاقیات اور انسانیت سے بیگانہ ہے اور ہسپتالوں کو نشانہ بنانے، مساجد اور گرجا گھروں کو تباہ کرنے، بچوں، خواتین، صحافیوں اور معصوم شہریوں کا قتل عام کرنے سمیت کسی بھی جرم سے دریغ نہیں کرتی،سلام ہو آپ ہیروز پر جو اپنے ایمان کے ساتھ جنگی جہازوںاور میزائلوں سے لڑتے ہیں اور اپنے دل میں خوف پیدا نہیں کرتے،الازہر نے عرب اور اسلامی ممالک سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کریں اور اپنے وسائل، دولت اور طاقت کو غزہ کے عوام کی مدد اور حمایت کے لیے استعمال کریں نیز اس غاصب حکومت کو جارحیت کرنے سے روکیں۔
مصر سے گزر کر خلیج فارس کے ممالک کے ایک اور حصے پر نظر ڈالتے ہیں جہاں ہمیں ملتا ہے کہ غزہ کی حمایت میں ان ممالک کے علمائے کرام کا مؤقف فلسطینیوں کی حمایت پر مبنی ہے جبکہ اس خطہ کے حکمرانوں نے مغربی ممالک کے حامی ہونے اور انہیں خوش کرنے کے لیے فلسطین کے تئیں مصلحت پسندانہ موقف اپنایا ہے جسے فلسطینیوں اور مسلم رائے عامہ نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
سعودی عرب میں، جہاں بن سلمان کے برسراقتدار آنے اور ان کی طرف سے سماجی اصلاحات کو اپنانے کے ساتھ، دینی علماء کو خاص طور پر خارجہ پالیسی کے مسائل پر تبصرہ کرنے سے منع کیا گیا ہے، مسجد الحرام کے مبلغ شیخ اسامہ خیاط نے نماز جمعہ کے خطبہ میں غزہ کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے خدا مسجد اقصیٰ کو آزاد کر اور فلسطین میں ہمارے بھائیوں کی مدد فرما اور ان کا مددگار اور حامی بن جا۔
عمان کے مفتی اعظم شیخ احمد بن حمد الخلیلی نے بھی اس حوالے سے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ہم غزہ اور فلسطین کے اپنے بھائیوں کو صیہونی استکبار کے ظلم و بربریت کے نتیجے میں پیش آنے والے واقعات خاص طور پر المعمدانی ہسپتال پر بمباری کے عظیم سانحے پر تعزیت پیش کرتے ہیں، ہمیں ان جرائم کے حوالے سے عرب ممالک کی بے حسی اور عالمی برادری کی خاموشی پر شدید افسوس ہے۔
دوسری جانب طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد عراقی سنی علماء کی فقہ اسمبلی نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ غزہ اور فلسطین کا دفاع فرض ہے،اس بیان میں کہا گیا کہ غزہ کے عوام نے فلسطینی مزاحمت کی تاریخ میں ایک لازوال داستان رقم کی،علماء امت کے نقطہ نظر سے غزہ کے عوام کی حمایت اور ان کے جائز دفاع میں ان کی حمایت کرنے کی ضرورت کے پیش نظر اظہار یکجہتی ضروری ہے،ان کی حمایت کریں، ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں اور تب تک ان کا ساتھ دیں جب تک وہ ان کے تمام جائز حقوق حاصل نہ کر لیں۔
اناطولیہ نیوز ایجنسی کے مطابق مسلم علماء کی عالمی یونین کی اجتہاد اور فتویٰ کمیٹی نے بھی غزہ جنگ کے حوالے سے مسلم ممالک کی حکومتوں کی ذمہ داریوں کے بارے میں فتویٰ کے عنوان سے ایک بیان جاری کیا اور واضح کیا کہ غزہ کو نسل کشی اور مکمل تباہی سے بچانے کے لیے فلسطینی حکومت اور مزاحمتی گروہوں کو فوجی سازوسامان کی فراہمی اسلامی حکومتوں کا فرض اور دینی ذمہ داری ہے ، حکومتوں اور فوجوں کو فوری مداخلت کرنی چاہیے،اس اقدام سے بین الاقوامی معاہدوں اور خطے اور قوم کے تزویراتی مفادات کے مطابق فلسطین کی مذہبی، سیاسی، قانونی اور اخلاقی حمایت کے لیے مکمل عزم کی توقع ہے۔
قدس آن لائن کے مطابق خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کی شریعہ علماء کی انجمن نے بھی غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی غیر منصفانہ ناکہ بندی کو اٹھانے کا مطالبہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ غزہ کے عوام کی ناکہ بندی کو توڑنا ہمارا فرض ہے جو قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں ہر مسلمان کا فرض ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے فلسطین کے حامیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کے دوران غزہ کے دفاع کے لیے اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے رہنماؤں کا ہنگامی اجلاس طلب کیا اور اعلان کیا کہ مسلمان حکمران جہاد کا فتویٰ جاری کریں تاکہ تمام مسلمان متحد ہو کر فلسطینیوں کی مدد کے لیے غزہ جائیں،مولانا فضل الرحمان بھی فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی اور صیہونی حکومت کی جارحیت کے متاثرین کی مدد کے مقصد سے ایک غیر اعلانیہ دورے پر غزہ جانے کے لیے تیار ہیں پاکستانی ذرائع کے مطابق فضل الرحمان دوحہ میں چند قطری حکام سے فلسطین کی صورتحال اور غزہ کے مظلوم عوام کی مدد کے طریقوں کے حوالے سے ملاقات کرنے والے ہیں۔
غیر مسلم معاشروں پر علمائے کرام کے مؤقف کا اثر
غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت میں شیعہ اور سنی علماء کا فتویٰ اور دنیا کی قوموں سے غزہ میں قابضین کے جرائم کا مقابلہ کرنے کا مطالبہ ظاہر کرتا ہے کہ عرب حکمرانوں کے برعکس جو سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور انہوں نے مقبوضہ فلسطین کی صورتحال پر نرم رویہ اختیار کیا ہوا ہے لیکن فلسطین کے مظلوموں کی مذہبی حمایت نہ صرف یہ کہ اپنا رنگ کھو چکی ہے بلکہ صہیونی جرائم میں اضافے کے ساتھ ساتھ مذہبی حمایت بھی بڑھ رہی ہے۔
مزید پڑھیں: فلسطین اور غزہ کے عوام کی حمایت میں دنیا کے مختلف شہروں میں مظاہرے
مسلم علماء کا مشترکہ اور یکساں موقف ہے کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور انہیں اس کی حرمت کو برقرار رکھنا چاہیے نیز صہیونی دشمن کو اس پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے ، انھوں نے ہمیشہ فلسطینی عوام اور اسلامی مقدسات کی بھرپور حمایت کی ہے، آیت اللہ سیستانی سمیت علمائے کرام کی حمایت کا عالم اسلام کے علاوہ غیر اسلامی ممالک پر بھی خاصا اثر پڑا ہے، حالیہ ہفتوں میں یورپی اور امریکی ممالک میں احتجاج کی بڑھتی ہوئی لہر اس مسئلے کی تصدیق کرتی ہے اور ظاہر کرتی ہے کہ ان ممالک کے حکمرانوں کے برعکس ان کی رائے عامہ ان کا ضمیر بیدار ہے اور صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف خاموش نہیں بیٹھنے والے۔
پوری تاریخ میں علمائے کرام کے فتاویٰ نے دنیا کے بیشتر ممالک میں تمام سماجی، ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور سائنسی شعبوں میں رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے،انسانی وجود کے ساتھ مذہب کے امتزاج اور اس کے ساتھ ثقافتی اور تہذیبی ترقی کے نتیجے میں، روحانی اور مذہبی امور لوگوں کے لیے ایک طاقتور اثر و رسوخ اور محرک بن گئے ہیں، خاص کر مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ جیسے تنازعات والے علاقوں میں۔
دریں اثنا، عوام میں ایک خاص مقام رکھنے والے مذہبی رہنما غنڈوں اور آمروں کا مقابلہ کرنے کے لیے رائے عامہ کو ہدایت دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور فلسطین کے معاملے میں علمائے کرام کا روحانی اور اثر انگیز کردار پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کیا جاتا ہے، جس طرح آیت اللہ سیستانی نے فتویٰ دے کر لاکھوں عراقی عوام کو داعش دہشت گرد گروہ کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان جنگ میں بھیجا اور اب یہ قوتیں جو ان کے فتوے کا نتیجہ ہیں، عراقی کی سکیورٹی کی ضامن بن چکی ہیں۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ علمائے کرام کے روشن فتاویٰ کے ساتھ ساتھ صیہونی حکومت کے خلاف اسلامی اور غیر اسلامی اقوام کی چیخ و پکار کو اگر مسلم حکمرانوں اور خاص طور پر صیہونیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والے عرب حکمرانوں کا ساتھ بھی مل جائے تو صیہونیوں کے خلاف ایسا سیلات امنڈ آئے گا کہ انہیں فلسطین کی سرزمین اور اسلامی مقدسات کی توہین کا ہوش نہیں رہے گا۔