غزہ پر قبضہ تل ابیب کے لیے خطرناک جال ثابت ہو سکتا ہے

غزہ

?️

 غزہ پر قبضہ تل ابیب کے لیے خطرناک جال ثابت ہو سکتا ہے
 عبرانی اخبار ہاآرتص میں اسرائیلی تجزیہ کار زوی بریل نے ایک تفصیلی تجزیے میں خبردار کیا ہے کہ غزہ پر مکمل قبضے کا منصوبہ تل ابیب کے لیے سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی لحاظ سے شدید نقصانات لا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور فوج کے سربراہ ایال زامیر کے درمیان غزہ سٹی اور پھر پوری پٹی پر قبضے کے معاملے پر واضح اختلاف پایا جاتا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ قبضہ قیدیوں کی رہائی اور حماس کی مکمل تباہی کا سبب بنے گا یا پھر اسرائیلی فوج کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑے گا؟
بریل کا کہنا ہے کہ اختلافات کے باوجود فوجی تیاریوں، ریزرو فوجیوں کی طلبی اور زمینی آپریشن کے انتظامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ پر عسکری قبضے کا فیصلہ تقریباً کر لیا گیا ہے اور آئندہ ہفتوں میں یہ عمل شروع ہو سکتا ہے۔ اس اقدام کے سیاسی اور معاشی نتائج بہت سنگین ہوں گے۔
دو سابق گورنرز آف بینک آف اسرائیل کے اندازوں کے مطابق غزہ کا براہِ راست انتظام چلانے پر سالانہ کم از کم ۳۰ ارب شیکل (تقریباً ۸.۲ ارب ڈالر) خرچ ہوں گے۔ اس میں دس ارب شیکل پانی، بجلی، خوراک اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں کے لیے جبکہ بیس ارب شیکل فوجی اخراجات کے لیے درکار ہوں گے۔ یہ تخمینے اقتصادی سست روی اور ممکنہ عالمی پابندیوں کو شامل نہیں کرتے۔
اسرائیلی تجزیہ کار نے واضح کیا کہ اصل مسئلہ صرف پیسہ نہیں بلکہ روزمرہ زندگی کی مکمل ذمہ داری بھی ہے۔ اسرائیل کو غزہ کے عوام کے لیے بجلی، پانی، دوائی اور خوراک مہیا کرنا ہو گا، اور ہر امدادی قافلے کو فوجی پہرے میں پہنچانا پڑے گا جس سے فوج کا بڑا حصہ جنگ کے بجائے انتظامی امور میں الجھ جائے گا۔
تخمینے کے مطابق شمالی غزہ کے کم از کم پانچ لاکھ شہری اپنے گھروں میں رہیں گے جبکہ یہ علاقے میدان جنگ بن جائیں گے۔ اس صورتحال میں عام شہریوں کی ہلاکتیں موجودہ اوسط یعنی روزانہ ۸۰ اموات سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہیں۔
ہاآرتص نے یہ بھی یاد دلایا کہ مغربی کنارے پر ۵۸ برسوں کے قبضے میں اسرائیل نے کبھی عالمی قوانین کی پابندی نہیں کی۔ فرق یہ ہے کہ وہاں مقامی بلدیاتی ادارے موجود تھے، لیکن غزہ میں کوئی ڈھانچہ نہیں ہے، اس لیے اسرائیلی فوج کو براہ راست روزمرہ زندگی سنبھالنی پڑے گی۔
بریل کے مطابق عالمی سطح پر بھی غزہ پر قبضہ اسرائیل کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ مغربی کنارے کے قبضے پر دنیا خاموش رہی تھی، مگر اس بار سرمایہ کاری کی معطلی، اسلحے کی پابندی اور جرمنی، مصر اور امارات جیسے ممالک کی بڑھتی ہوئی دباؤ کی علامات نظر آ رہی ہیں۔ خاص طور پر امارات نے واضح کیا ہے کہ فلسطینی سرزمین کے کسی بھی الحاق کو وہ سرخ لکیر سمجھتا ہے۔
رپورٹ کے آخر میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ اسرائیلی حکومت حماس کا خاتمہ مقصد بتا رہی ہے، مگر لبنان، عراق اور افغانستان کے تجربات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ فوجی قبضہ مزاحمتی تحریکوں کو ختم نہیں کرتا۔ اصل سوال یہ ہے کہ اسرائیل کب تک غزہ کا بوجھ برداشت کر پائے گا، اس سے پہلے کہ وہ خود اس دلدل میں پھنس جائے۔

مشہور خبریں۔

امریکی کانگریس میں ہنگامہ خیز اجلاس؛ ٹرمپ کا دعویٰ عقل سے عاری

?️ 28 جون 2025 سچ خبریں:امریکی کانگریس میں ایران پر حملے پر ہنگامہ کھڑا ہو

بلوچستان: سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی گرفتاری کیلئے آپریشن جاری

?️ 4 جولائی 2023بلوچستان: (سچ خبریں) افغان سرحد سے ملحقہ بلوچستان کے اضلاع ژوب اور

سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں عمران خان سے جواب طلب کرلیا

?️ 26 اکتوبر 2022اسلام آباد:(سچ خبریں) سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی پاکستان تحریک انصاف

مقبوضہ کشمیر پر مودی کی فلاپ میٹنگ میں شامل کشمیری رہنما نے بھارت کا چہرہ بے نقاب کردیا

?️ 26 جون 2021نئی دہلی (سچ خبریں)  بھارتی انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی کی

توشہ خانہ کیس میں عمران خان کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور

?️ 17 دسمبر 2023اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ

شہباز شریف کی سابق وزیر اعظم پر سخت تنقید

?️ 23 مئی 2022لاہور(سچ خبریں)وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے سابق وزیر اعظم پر سخت

ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطین کی حمایت کرنے والی ریاستوں کے لیے ہنگامی فنڈنگ کم کرنے کی دھمکی دی ہے

?️ 5 اگست 2025سچ خبریں: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے فلسطین کی حمایت

ایئرلائن کے سیکڑوں کارکنوں کی ہڑتال سے روم کی سڑکیں اور ایئرپورٹ بلاک

?️ 25 ستمبر 2021 سچ خبریں: رائٹرز کے مطابق اٹلی ہوا بازی کی صنعت کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے