سچ خبریں: ایک معروف فرانسیسی میگزین نے لکھا کہ اسرائیل کے خلاف حماس کی کارروائیوں کے آغاز اور نیتن یاہو کی جنگی پالیسی کو اپنانے سے، ریاض-تل ابیب کو معمول پر لانے کا خواب پورا ہو گیا ہے اور سعودی عرب اپنی روایتی علاقائی پوزیشن پر واپس آ گیا ہے۔
شفقنا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے خلاف غزہ سےفلسطینی مزاحمت کاروں کے شاندار آپریشن کے بعد ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کی بحالی کی واشنگٹن کی کوششیں ایک بار پھر ناکام ہو گئی ہیں اور تل ابیب کے خلاف حماس کے اچانک حملے سے سب کی نگائیں فلسطینی کی آزادی پر ٹکی ہوئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جرمنی تک طوفان الاقصیٰ کے جھٹکے
اسی سلسلے میں پیر کے روز فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد ریاض کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے صیہونی حکمرانوں کے خواب مٹی میں مل جانے پر گفتگو کرتے ہوئے ایک ماہ قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں صہیونی وزیر اعظم کی تقریر کی طرف اشارہ کیا جس میں انہوں نے عرب ممالک کے ساتھ مفاہمت کے ایک نئے باب کے احساس کی نشاندہی کی۔
یاد رہے کہ اس ہفتے کے روز صیہونی حکومت کے خلاف تحریک حماس اور اس کے فلسطینی اتحادیوں کی اچانک کاروائی کے بعد نیتن یاہو نے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے اپنے سابقہ نظریے سے اچانک منھ موڑ لیا اور اپنی سیاسی گفتگو کو جنگی ادب میں بدل دیا اور غزہ کی پٹی میں فلسطینی افواج کے ساتھ جنگی حالات کا نام دیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ تین دنوں میں صیہونی حکومت کے وحشیانہ جرائم سے، واشنگٹن اور تل ابیب اچانک سارا کھیل بگڑ گیا، اس حوالے سے واشنگٹن میں مڈل ایسٹ اسٹڈیز تھنک ٹینک کے نائب سربراہ "برائن کیٹولس نے کہا کہ فلسطین کی موجودہ صورتحال نے تل ابیب اور ریاض کے درمیان تعلقات قائم کرنا بہت مشکل بنا دیا ہے۔
دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی گروہوں اور اسرائیل کے درمیان تنازعات کے آغاز کے بعد، سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے صیہونی حکومت کے حملوں پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اشتعال انگیز اقدامات کے نتائج سے خبردار کیا ہے۔
مزید پڑھیں: طوفان الاقصی آپریشن کیوں شروع ہوا؟
اس سلسلے میں سعودی محقق عزیز الغیشیان نے ریاض اور تل ابیب کے تعلقات کے امکانات کے بارے میں اپنے جائزے میں کہا کہ مسجد الاقصی کے خلاف اسرائیل کے منصوبہ بند اشتعال انگیز اقدامات کے بارے میں ریاض کے حالیہ مؤقف سے ثابت ہوا کہ سعودی حکام کو فلسطینیوں کے حقوق کا بھی خیال ہے،
انہوں نے لکھا کہ یہ معلوم ہوچکا ہے کہ سعودیوں کے نزدیک تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے بدلہ میں پہلی ترجیح فلسطینیوں کے حقوق کی پاسداری ہے۔
قابل ذکر ہے کہ امریکن کونسل آن فارن ریلیشنز کے محقق اسٹیفن کک کے مطابق پولز کے مطابق صرف 2 فیصد سعودی اسرائیل کے ساتھ معمول پر لانے کے حق میں ہیں۔