سچ خبریں: غزہ کی پٹی میں جنگ کے طول پکڑنے اور اس علاقے میں تل ابیب کے اہداف کی تکمیل نہ ہونے سے صیہونی حکام کے درمیان زبانی تنازعات میں شدت آگئی ہے۔
الجزیرہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کی جارحیت کے آغاز کے 200 سے زائد دن گزر جانے کے بعد بھی اس حکومت کی فوج قیدیوں کی واپسی یا تحریک حماس کے خاتمے جسیے پہلے سے اعلان کردہ اہداف میں سے کسی ایک کو بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے،یہ مسئلہ صہیونی حکام کے درمیان زبانی تنازعات اور اختلافات میں اضافے کا سبب بنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیتن یاہو کے ترجمان کو کس بات پر برطرف کیا گیا؟
اس سلسلے میں صیہونی آبادکاری کے وزیر نے اس حکومت کے آرمی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی کابینہ 22 یا 33 قیدیوں کی واپسی کے لیے سب کچھ قربان کر رہی ہے جو زندہ رہنے کے لائق نہیں ہیں۔
صیہونی وزیر برائے آبادکاری کے یہ الفاظ اس حکومت میں حزب اختلاف کی تحریک کے رہنما یائر لاپڈ کے ردعمل کا باعث بنے۔
لاپڈ نے اس صہیونی وزیر کے جواب میں تاکید کی کہ اسرائیلی کابینہ 22 یا 33 انتہا پسند ارکان پر مشتمل ہے جنہیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ادھر مقبوضہ علاقوں میں حالات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں اور صیہونی آباد کاروں نے گزشتہ رات بھی صیہونی وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے خلاف اپنے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھا۔
الجزیرہ کے رپورٹر کا کہنا ہے کہ سینکڑوں صیہونی آباد کاروں نے تل ابیب میں اسرائیلی وزارت جنگ کی عمارت کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اور غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت اور فلسطینی مزاحمت کاروں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر دستخط کرنے کا مطالبہ کیا۔
نیز صیہونی ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا کہ احتجاج کرنے والے آباد کاروں نے تل ابیب کی بیگن سڑک کو بند کر دیا ہے تاکہ صیہونی قیدیوں کو غزہ کی پٹی سے واپس لانے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔
مزید پڑھیں: اسرائیلی مظاہرین کا نیتن یاہو سے مطالبہ
غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کے پاس موجود صیہونی قیدیوں کے اہل خانہ نے صیہونی وزیر اعظم سے فوری ملاقات کا مطالبہ کیا تاکہ اس حکومت اور غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے نئے طریقہ کار کے بارے میں جان سکیں۔