سچ خبریں: صیہونی سپریم کورٹ عدالتی اصلاحات کے حوالے سے منظور شدہ قوانین کو منسوخ کرنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لانے کا ارادہ رکھتی ہے؛ ایسا عمل جو مقبوضہ زمینوں میں تنازعات کی ایک نئی لہر پیدا سکتا ہے۔
اسپوٹنک نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق صیہونی حکومت کی سپریم کورٹ نے پہلی بار اعلان کیا کہ 15 ججوں پر مشتمل کمیٹی عدالتی اصلاحات کے خلاف درخواستوں کا جائزہ لے گی۔
صیہونی حکومت کی سپریم کورٹ کے سربراہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس عدالت کے تمام ججوں نے مقبوضہ علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کی لہر پیدا کرنے والے معقولیت کی تنسیخ قانون کے جائزہ اجلاس میں شرکت کی۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونی ریاست کی صورتحال اور نیتن ہاہو کی خوش فہمی
ماہرین نے تاکید کی ہے کہ توقع ہے کہ صیہونی سپریم کورٹ مذکورہ بالا قوانین کو کالعدم قرار دے گی،ایک ایسی کاروائی جو اس عدالت اور نیتن یاہو کی کابینہ کے اتحاد کے درمیان بڑے پیمانے پر تصادم کا باعث بنے گی۔
یاد رہے کہ صیہونی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی آٹھ قانونی درخواستوں کا بارہ ستمبر کو جائزہ لیا جانا ہے،تجزیہ کاروں نے تاکید کی ہے کہ صیہونی سپریم کورٹ کی جانب سے آئینی قوانین کو منسوخ کرنے کے لیے اس حکومت میں مداخلت کرنے کی پہلے کبھی نظیر نہیں ملتی لیکن اس بار وہ اقدام کرے گی کیونکہ مذکورہ قانون اس عدالت کو بھی نشانہ بناتا ہے۔
واضح رہے کہنیتن یاہو کی کابینہ کا اتحاد صیہونی سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کردہ قوانین کو منسوخ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ اگر صیہونی حکومت کی سپریم کورٹ ان قوانین کو منسوخ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو نیتن یاہو کی کابینہ کے دائیں بازو کے ارکان مذکورہ عدالت کے خلاف وسیع پیمانے پر اقدامات کریں گے۔
مزید پڑھیں: کیا اسرائیل میں فوجی بغاوت ہونے والی ہے؛خود صیہونی کیا کہتے ہیں؟
قابل ذکر ہے کہ صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے قبل ازیں این بی سی کے ساتھ بات چیت میں اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ اس فیصلے کو قبول کریں گے اگر اس حکومت کی سپریم کورٹ معقولیت کے ثبوت کو منسوخ کر دیتی ہے، جواب نہیں دیا اور صرف اتنا کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس قانون کو ختم نہیں کرے گی۔