سچ خبریں:والہ نیوز بیس کے رپورٹر امیر بوخبوط نے اس حوالے سے چند منٹ پہلے لکھا تھا کہ مغربی کنارے کی فوج کے کمانڈر سے اس سلسلے میں کچھ سوالات ہیں۔
حملہ آور قوت اس طاقتور بم سے کیسے حیران ہے؟ کیا ہم انفارمیشن چیٹ کے سامنے ہیں؟ یا ہمارے فیلڈ تجزیہ میں کوئی مسئلہ ہے؟
کیا آج جنین ہسپتال میں پھٹنے والے بم کی طاقت، مغربی کنارے کے شمال میں اسرائیلی فوج کی آزادی کو ایک مسئلہ بنا دے گی؟
ہم بکتر بند گاڑی کے ڈرائیور اور ان فوجیوں کو کیا کہیں گے جو جنین میں آپریشن شروع کرنے کے لیے اگلے آپریشن میں اس گاڑی میں سوار ہوں گے؟
صیہونی حکومت کے 12 چینل کے تجزیہ نگار یواف زیتون نے جنین میں 5 فلسطینیوں کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس تنازع میں ایک اپاچی طیارہ کئی گولیوں کا نشانہ بنا، جب کہ فوج اس خوف کے پیش نظر پوری طرح چوکس ہے۔ جوابی کارروائیوں میں یہ طے پایا ہے کہ یہ بم مکمل طور پر ہاتھ سے بنایا گیا ہے اور اس کی تعمیر اس علاقے میں مقامی طور پر کی گئی تھی اور ہمیں اس تنازعے اور گھات لگا کر حملے کے حل کے لیے سیکڑوں فوجی اہلکاروں کو بھیجنا پڑا، جن میں انتہائی ایلیٹ فورسز، گفااتی اور میگیلن شامل ہیں۔
یہ اس عبرتناک ناکامی کے حوالے سے صہیونی ماہرین کے تجزیوں کا صرف ایک حصہ تھے، جب کہ باقی ذرائع ابلاغ نے جنین میں فلسطینی جنگجوؤں کے گھات لگا کر حملے کو اسرائیلی فوج کی قطعی ناکامی اور خاص طور پر اسرائیلی فوج کی جانب سے اس کا انخلا کرنے میں ناکامی قرار دیا۔ اس لڑائی میں پھنسے فوجیوں اور فوجی گاڑیوں کو اس ناکامی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔
صیہونی نیشنل نیٹ ورک کان کے عسکری تجزیہ کار روئی شیرون نے آپریشن کے وقت اس حوالے سے لکھا کہ بم دھماکے کے 7 گھنٹے بعد اور اسرائیلی فوج کے جنین میں داخل ہونے کے 13 گھنٹے بعد ہم ایک بری حالت میں پھنس گئے۔ ہماری فوجی گاڑیاں ابھی تک جھڑپ کے منظر میں پھنسی ہوئی ہیں۔
لیو رام کے مطابق فلسطینی استقامتی گروپ ابھی تک بم بنانے کے آغاز میں ہیں تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ فلسطینی جنگجوؤں نے اسرائیلی فوج کو سب سے زیادہ جانی نقصان پہنچانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔