سچ خبریں: لبنان کی پبلک سکیورٹی آرگنائزیشن کے سابق ڈائریکٹر جنرل نے ہفتے کے روز حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے اسے شعلہ انگیز قرار دیا۔
النشرہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق لبنان کی پبلک سکیورٹی آرگنائزیشن کے سابق ڈائریکٹر جنرل عباس ابراہیم جنہوں نے پانچ روز قبل حماس اور صیہونی حکومت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے لیے ہونے والے بالواسطہ مذاکرات میں شرکت کا اعلان کیا تھا، کہا کہ ہم ہم غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے اعلان کے آخری وقت میں ہیں،نیتن یاہو امریکہ کی مرضی کی مخالفت کرنے سے قاصر ہیں،تمام ممالک حماس سے اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے جنگ بندی کے منتظر ہیں جو ہونے والی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سید حسن نصراللہ کی سفارتی معقولیت
تحریک حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کے ساتھ ان کی ملاقاتوں اور ان کی ثالثی کی کوششیں قطر کے ساتھ متصادم نہ ہونے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ میں انسانی وجوہات کی بنا پر ثالثی کا خواہاں ہوں،میں قطر گیا جو ان افواہوں کی نفی کرتا ہے کہ قطر نے غزہ کے خلاف جنگ میں میرے داخلے کی مخالفت کی،افواہوں کی وجہ یہ ہے کہ ہم قطر میں نہیں لبنان میں ہیں جبکہ میں نے اسماعیل ہنیہ سے قطر میں ملاقات کی۔
نیتن یاہو جنگ کے بعد جیل جائیں گے
عباس ابراہیم نے کہا کہ اسرائیل کی بے مثال حمایت موجود ہے،اگر جنگ ختم ہوئی تو نیتن یاہو کو غفلت برتنے پر جیل جانا پڑے گا،اسرائیل کو اس سے آزاد کیا جانا چاہیے،جنگ زیادہ دیر نہیں چلے گی،نیتن یاہو اپنے آپ کو بچانے کے لیے جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حماس اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ بات چیت کرے گی،حماس کا مقصد فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا ہے جن کی تعداد تقریباً پانچ ہزار ہے،حماس کی درخواست معقول ہے،خون کے بغیر رہائی اور قربانی کے بغیر آزادی ممکن نہیں، آزادی حاصل کرنے والوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور شہید و زخمی ہوئے۔
اسرائیل آئے روز بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان اٹھا رہا ہے
عباس ابراہیم نے کہا کہ نیتن یاہو دنیا کو جنگ کی طرف لے جانے کے لیے وقت خریدنا چاہتے ہیں، اسرائیل کا ہر روز بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے کیونکہ اس کی فوج اندر سے شکست کھا چکی ہے، یہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ اس نے اپنے لیے ایسے اہداف مقرر کر رکھے ہیں جو وہ حاصل ہو ہی نہیں سکتے، یہ ہمیں 33 روزہ جنگ کی یاد دلاتا ہے جس میں حزب اللہ کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ 7 اکتوبر کے واقعات کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہونے کا الزام لگایا گیا تھا لیکن امریکہ نے اس بات پر زور دیا کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
عباس ابراہیم نے مزید کہا کہ میرے خیال میں حملے کے پہلے دن سے ہی حماس کا مقصد قیدیوں کو رہا کرنا تھا،حماس نے اسیروں کی رہائی کے لیے حملہ کیا جو غلطی نہیں تھی، اسرائیلی فوج کہاں ہے؟ اسرائیل کو شکست ہوئی ہے اور فاتح فریق اپنی شرائط عائد کرے گا،تل ابیب اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے اور ایسا نہیں ہوگا، خاص طور پر جب امریکی جہاز سمندر سے نکل جائیں گے اور فلسطینی قوم باقی رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ جیسا کہ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ حماس نے طوفان الاقصیٰ آپریشن اکیلے انجام دیا اور جو کہا گیا ہم اس پر یقین کرتے ہیں۔
تل ابیب تنازعات اور علاقائی جنگ میں اضافے کا سبب
عباس ابراہیم نے لبنان کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی آموس ہاکسٹین کے دورہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہاکسٹین ایک یہودی ہیں اسرائیلی نہیں اور اس لیے ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے،وہ امریکی ہے اور ہم اسی کے مطابق ان سے بات کرتے ہیں۔
انہوں نے جنوبی لبنان کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تصادم کے اصول اپنی جگہ پر برقرار ہیں اور جنوبی لبنان میں ایک لبنانی خاندان کی شہادت حزب اللہ کو اسرائیل کے ساتھ جنگ کی طرف راغب کرنے اور مغرب کو ایک بڑے پیمانے پر جنگ کی طرف کھینچنے کی کوشش تھی،تل ابیب علاقائی تنازعات اور جنگ میں اضافے کا سبب ہے جبکہ حزب اللہ عسکری سطح پر شعوری طور پر کام کر رہی ہے،میں جنگ کی سفارش نہیں کرتا اور حزب اللہ کی پالیسیوں کا تعین سید حسن نصر اللہ کرتے ہیں،اسرائیل نے قرارداد 1701 کی خلاف ورزی کی ہے اور حزب اللہ جنوبی لبنان میں ایک جائز مزاحمت ہے۔
سید حسن نصراللہ کا خطاب شعلہ بیان ہو گا
ابراہیم نے تاکید کی کہ جنوبی لبنان میں اسرائیل کے داخلے کی مدت گزر چکی ہے،تمام لبنانیوں کو جنوب میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنی چاہیے۔
مزید پڑھیں: غزہ کی صورتحال اور سید حسن نصراللہ کی تقریر
انہوں نے امریکہ کی طرف سے حزب اللہ کو دھمکی دیے جانے کے بارے میں بھی کہا کہ میں اپنے دوستوں اور خاندان (حزب اللہ) میں سے اپنے خاندان کا انتخاب کرتا ہوں۔ میں تصور نہیں کرتا کہ ان کے درمیان صورتحال تنازعہ کی طرف لے جائے گی۔
لبنان کی پبلک سکیورٹی آرگنائزیشن کے سابق ڈائریکٹر جنرل نے مزید کہا کہ نصر اللہ کی تقریر شعلہ انگیز ہو گی۔