سچ خبریں: مغربی ایشیائی مسائل کے ایک ماہر نے مقبوضہ علاقوں میں حالیہ صورتحال کے بارے میں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے انقلابی اور مزاحمتی نقطہ نظر کی بنیاد پر اور ساتھ ہی ساتھ سفارتی معقولیت کے ساتھ گفتگو کی۔
مغربی ایشیائی مسائل کے ماہر نے کہا کہ مغربی ایشیا کی حالیہ صورتحال کے بارے میں جمعہ کے روز سید حسن نصر اللہ کی تقریر ان کے معمول کے نقطہ نظر پر مبنی تھی، جس کا مقصد تحریک مزاحمت کا دفاع کرنا ہے۔
وہ اپنی تقریر میں کچھ سنجیدہ موقف اختیار کرتے ہوئے اپنی گفتگو سے عوامی سفارت کاری کے میدان میں صیہونی حکومت کی بعض کوششوں کو بے اثر کرنے میں کامیاب رہے۔
یہ بھی پڑھیں: سید حسن نصر اللہ کی تقریر کے اہم نکات
انہوں نے اپنی عوامی سفارت کاری کے ذریعہ عبرانی اور مغربی محاذوں کی حالیہ کوششوں کو بے اثر کر دیا، جنہوں نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کے میدانی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی، سید حسن نصر اللہ نے مغربیوں اور صیہونیوں کی طرف بعض شکوک و شبہات کو پھیلانے کر رائے عامہ کو منحرف کرنے کی سازش کو بےاثر کر دیا۔
سید حسن نصر اللہ نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن مکمل طور پر فلسطینیوں کا فیصلہ تھا، انہوں نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں صیہونی حکومت کے بعض غلط اقدامات کی بھی یاد دہانی کرتے ہوئے کہا کہ7 اکتوبر کو ہونے والے واقعات صیہونی حکومت اور اس کے بعض شہریوں کے وحشیانہ اقدامات کی وجہ سے رونما ہوئے
مغربی ایشیائی مسائل کے ماہر نے اس بات پر زور دیا کہ حسن نصر اللہ نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ مزاحمتی گروہ فلسطینی مزاحمتی تحریک کی حمایت کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ عراق، لبنان اور یمن کے مزاحمتی گروہ اس تحریک کا ساتھ دینے کے لیے میدان میں اترے ہیں۔
مغربی ایشیائی مسائل کے اس ماہر نے مزید کہا کہ اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں نصر اللہ نے حالیہ صورتحال کے حوالے سے حزب اللہ تحریک کے نقطہ نظر کی وضاحت کی اور اس بات پر زور دیا کہ حزب اللہ کا نقطہ نظر ایک انقلابی اور مزاحمتی نقطہ نظر ہے۔
یہ بیان کرتے ہوئے کہ گزشتہ دنوں سید حسن نصر اللہ کی ممکنہ گفتگو کے سلسلے میں ماحول بنانے کی کوشش کی گئی اور ہم نے اس ماحول کا مشاہدہ بعض مغربی ذرائع ابلاغ بھی بھی کیا، انہوں نے کہا کہ انہوں نے ماحول کو مزید خراب کرنے کی کوشش کی لیکن سید نصراللہ کا نقطہ نظر سفارتی معقولیت کے ساتھ انقلابی اور مزاحمتی تھا لہذا انہوں نے دو مسائل پر زور دیا: غزہ میں فوری جنگ بندی کا قیام اور اس جنگ میں حماس کی فتح۔
مزید پڑھیں: سید حسن نصر اللہ کی تقریر پر صہیونی میڈیا کا رد عمل
انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے مستقبل کے لیے بھی مزاحمتی تحریک کے آپشنز کو محدود نہیں کیا اور کہا کہ اگر جنگ جاری رہی تو مزاحمت بھی جنگ کو جاری رکھنے اور اپنی آپریشنل سطح کو بلند کرنے کے لیے تیار ہے۔