سچ خبریں: وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب امریکی کانگریس کی رائے کو راغب کرنے کے مقصد سے تیل کی پیداوار بڑھا رہا ہے۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اپنے ایک کالم میں پیش گوئی کی ہے کہ اگر تیل کی قیمتیں زیادہ رہیں تو سعودی عرب اگلے سال کے شروع میں تیل کی پیداوار بڑھانا چاہے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کیا سعودی عرب امریکی محور سے دور ہو رہا ہے؟
اس رپورٹ کے مطابق اس کاروائی کو سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس نے پہلے بائیڈن حکومت کی تیل کی قیمتوں میں کمی کی درخواست کو مسترد کر کے دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ پیدا کر دیا تھا۔
وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ ایسا فیصلہ سعودی عرب کی جانب سے امریکہ کے ساتھ مشترکہ فوجی معاہدے کے بدلہ میں کیا جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مشترکہ فوجی معاہدے میں امریکی جوہری امداد،ہتھیاروں کی فروخت اور اس ملک کے سویلین جوہری پروگرام کی حمایت شامل ہوں گے۔
اس معاہدے میں ریاض کی طرف سے تل ابیب کو تسلیم کرنا بھی شامل ہے، ایک ایسا مسئلہ جو مشرق وسطیٰ میں اہم جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں کا باعث ہوگا۔
تاہم بائیڈن انتظامیہ کو اس معاہدے کے لیے کانگریس کی حمایت کی ضرورت ہے، اسی وجہ سے یہ انتظامیہ سعودی عرب کے ساتھ ایک مشترکہ دفاعی معاہدہ اور اس ملک کو اربوں ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت پر غور کر رہی ہے۔
دوسری طرف سعودی عرب کی طرف سے تیل کی پیداوار میں کوئی بھی اضافہ OPEC+ میں اس ملک اور روس کے درمیان اتحاد کو پیچیدہ بنا دے گا۔
مزید پڑھیں: کیا سعودی عرب کو اب امریکی اسلحہ پر بھی اعتبار نہیں رہا؟
واضح رہے کہ بائیڈن انتظامیہ موجودہ مذاکرات کو آگے بڑھاتے ہوئے اور تفصیلات پر توجہ مرکوز کرکے اگلے چھ ماہ کے اندر سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اگرچہ سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے بارے میں خدشات برقرار ہیں،اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے حکام نے سعودی عرب سے کہا ہے کہ وہ واشنگٹن میں اپنی تصویر بہتر بنائے جہاں امریکی کانگریس ایسے سفارتی معاہدوں کی منظوری میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔