سچ خبریں:ایک مغربی ویب سائٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سائبر انٹیلی جنس اور جاسوسی کے آلات میں مقابلہ کر رہے ہیں۔
مغربی انٹیلی جنس ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی حکام جاسوسی اور ہیکنگ آلات کے حوالے سے اپنے سائبر سکیورٹی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں،سعودی لیکس کے مطابق سکیورٹی ویب سائٹ انٹیلی جنس آن لائن نے اعلان کیا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات خطے میں سائبر سکیورٹی میں ٹاپ رینک ، جاسوسی اور ہیکنگ کے آلات رکھنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں۔
ویب سائٹ نے مزید زور دیا کہ سعودی عرب کی سائبر صلاحیتوں کو فروغ دینے کی کوششیں ثمر آور ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات کے لیے ملکی کاروبار کے مواقع کم ہو رہے ہیں،اس فرانسیسی سائٹ کے مطابق سعودی عرب جو علاقائی کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہے، جدید ترین ٹیکنالوجیز کو جذب کرنے کے لیے نرم اور سخت طاقت کا استعمال کرتا ہے، خلیجی ریاستوں کے درمیان اثر و رسوخ کے لیے جنگ اور سائبر مقابلے کی علامت تجارتی میلے نرم طاقت کی حکمت عملی کا ایک پہلو ہیں جسے سعودی عرب متحدہ عرب امارات کے ساتھ اپنے سائبر مقابلے کو متوازن کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب نے دبئی میں GISEC سائبر سکیورٹی تجارتی شو کو چیلنج کرنے کے لیے بلیک ہیٹ، بین الاقوامی سائبر سکیورٹی ایونٹس کا ایک سلسلہ منعقد کیا، اس طرح کے واقعات ریاض کی خلیج فارس اور افریقہ میں الیکٹرانکس کی صنعت کے لیے ایک نئے مرکز کے طور پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کی کوشش کرنے کی طویل مدتی پالیسی کا ٹھوس اظہار ہیں،یاد رہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات خطے میں تجارتی مرکز بننے کے لیے مقابلہ کرنے والی سب سے بڑی عرب معیشتیں ہیں۔
واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں غیر ملکی سرمائے کو راغب کرنے اور دیگر ممالک کو وسیع برآمدات کے میدان میں ابوظہبی کے اقتصادی اقدامات کی وجہ سے متحدہ عرب امارات کی معیشت سعودی عرب سے آگے نکل گئی ہے، رپورٹ کے مطابق ریاض میکانزم کا استعمال کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کی اقتصادی ترقی پر پابندیاں لگانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیادہ تر علاقائی ہیڈ کوارٹر ہیں جو اگلے سال 9 فیصد کارپوریٹ ٹیکس عائد کرنے کے لیے تیار ہیں،ٹیکس کی یہ شرح ان کمپنیوں پر سعودی عرب کی طرف سے عائد کردہ شرح سے اب بھی 20 فیصد کم ہے، یاد رہے کہ سعودی عرب چاہتا ہے کہ بین الاقوامی کمپنی 2024 کے آغاز تک اپنا علاقائی ہیڈ کوارٹر ریاض منتقل کر دے۔