سچ خبریں: امریکی فوج کے سابق ڈپٹی کمانڈر مارک کِمِٹ نے کہا کہ فوجی امداد میں کمی کے امکان کے پیشِ نظر یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کا روس کے ساتھ بات چیت بعد میں کرنے کی بجائے ابھی شروع کرنا بہتر ہوگا۔
اس امریکی جنرل نے وال اسٹریٹ جرنل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ 19 اگست امریکہ نے یوکرین کو مزید 775 ملین ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی جس میں جیولین میزائل اور ہائیمارس سسٹم کے لیے درکار گولہ بارود اور تاؤ میزائل شامل ہیں۔ 105 ملی میٹر کی ہووٹزر توپ تھی۔
یوکرین کو حال ہی میں دیے گئے سسٹمز اور ہتھیار پرانے ہیں اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میدان جنگ میں ہتھیاروں کا اوسط استعمال اس کی پیداوار کے حجم سے زیادہ ہو گیا ہے اور اسی حساب سے نیٹو کو اپنے جدید نظاموں کی تعداد کو کم کرنے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
اس امریکی فوجی اہلکار نے خبردار کیا کہ موجودہ صورتحال ان ممالک پر بہت زیادہ دباؤ ڈالے گی جو یوکرین کی حمایت کرتے ہیں اور افراط زر کو جاری رکھتے ہیں اور اپنی حکومتوں کے لیے لوگوں کی حمایت کو کم کرتے ہیں۔
زیلینسکی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہتھیاروں کی حمایت میں کمی سے اس کی فوج پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے جو نہ صرف میدان جنگ میں واضح ہوں گے بلکہ یہ یوکرائنی عوام کو غیر ملکی حمایت میں کمی کے بارے میں اشارے بھی بھیجے گا ۔
انہوں نے کہا: "سفارتی حل کے عمل کا آغاز پریشان کن رہا ہے اور یہ ناکامی کی نشاندہی کر سکتا ہے، لیکن موجودہ دلدل سے نکلنے کے امکانات بہت کم ہیں، اور بہتر ہے کہ بات چیت ابھی شروع کی جائے نہ کہ بعد میں۔”