سچ خبریں: امریکیوں نے جو حکم پوری دنیا میں ڈالنا چاہا اس کا انجام یہ پیغام دیتا ہے کہ ایسے حالات میں قومی مفاد میں منصوبہ بندی اور فیصلہ کرنا ضروری ہے۔
امریکہ کے زوال کی حقیقت کو سمجھنا مشکل نہیں اور اس ملک کے ملکی حالات اور بین الاقوامی حالات پر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ زوال پذیر ہے اور اگلے مرحلے کو سقوط کہنا چاہیے۔ سابق سوویت یونین کے انہدام کی طرح۔
ان دنوں سوویت یونین کے زوال کی سالگرہ تاریخ کی سپر پاورز میں سے ایک ہے اور اب ایک یک قطبی دنیا نظر آتی ہے جس میں صرف نام نہاد سپر پاور امریکہ ہے۔
لیکن سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد، جسے اب 30 سال ہو چکے ہیں، میدان کو اپنے لیے خالی نظر آنے والا امریکہ، اپنے لیے اور دوسروں کے اخراجات میں کٹوتی کرتے ہوئے خود کو کوڑے مارتا رہا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی اس حد تک ہے کہ یہ ملک زوال کا شکار ہے۔
امریکہ کے زوال کے ساتھ ساتھ، دنیا نے خود کو از سر نو تعمیر کیا ہے اور ایک مشکل عمل میں، موقع سے فائدہ اٹھانے اور ہر اس چیز کے خلاف کھڑا ہونے کی کوشش کی ہے جسے امریکہ نے دنیا پر ظلم اور تسلط کے لیے استعمال کیا ہے۔
امریکی اسراف کے خلاف مزاحمت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ عراق میں عوامی طاقتیں امریکی فوجی قافلوں پر حملے کر رہی ہیں اور عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
ایران اس تخریبی رویے کا مقابلہ کرنے میں پیش پیش ہے جو امریکیوں نے اپنے لیے تیار کیا ہے اور یہ طرز عمل ظاہر کرتا ہے کہ امریکی طاقت کو ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ اسے چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے اور امریکہ کے زوال کو تیز کیا جا سکتا ہے۔
دنیا میں جو کچھ امریکیوں نے کیا ہے اس کے علاوہ امریکہ کے سامنے چین اور روس جیسے دیگر چیلنجز بھی ہیں۔
امریکہ نے یوکرین اور تائیوان کے واقعات سے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ روس کے ساتھ تصادم یا تائیوان پر چین کے ساتھ جنگ میں یوکرین میں گھسنے کی نہ صرف نااہلی بلکہ ہمت بھی رکھتا ہے۔
امریکہ نہ صرف خود دنیا کے لیے ایک عجیب و غریب پیچ ہے بلکہ وہ ایک ایسی حکومت کی حمایت بھی کرتا ہے جو عدم تحفظ اور عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔