سچ خبریں:ریاستہائے متحدہ میں بڑی تعداد میں قیدی ہونے کی وجہ سے اس ملک میں اجتماعی قید کی اصطلاح ایک عام اصطلاح بن چکی ہے۔
لاس اینجلس ٹائمزکی رپورٹ کے مطابق امریکی دنیا کی آبادی کا صرف 5 فیصد ہیں لیکن امریکن سول لبرٹیز یونین کے مطابق اس ملک میں دنیا کے تقریبا ایک چوتھائی قیدی ہیں،واضح رہے کہ امریکی تاریخ میں اجتماعی قید کی طویل تاریخ ہے، اس طرز قید کا آغاز پہلی بار 19 ویں صدی میں غلامی کے خاتمے کے جواب میں جنوبی حکومتوں نے سزا کی ایک شکل کے طور پر شروع کیا ، جس نے ان کی معیشت کی بنیادوں کو تباہ کردیا۔
تاہم امریکی جیل کی آبادی میں بڑے پیمانے پر اضافے کے جواب میں ، "اجتماعی قید” کی اصطلاح 20 ویں صدی کے آخر میں مشہور ہوئی، اطلاعات کے مطابق رونالڈ ریگن کی صدارت کے دوران قید امریکیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہ، برینن جسٹس سینٹر کے مطابق جب ریگن نے 1980 میں اقتدار سنبھالا تو امریکی جیل کی آبادی 329000 تھی ،جب آٹھ سال کے بعد انھوں نے اقتدار چھوڑا تو یہ تعداد بڑھ کر 627000 ہوگئی ۔
اس کے علاوہ 1970 کے بعد سے امریکی جیل کی آبادی میں 700 فیصد اضافہ ہوا ہے، اطلاعات کے مطابق اس وقت ریاستہائے متحدہ میں قید خانوں میں 2.3 ملین افراد قید ہیں یہ ایک اعداد وشمار جو اس ملک میں آبادی میں اضافے اور جرائم کی شرح سے بہت آگے ہیں، امریکن سول لبرٹیز یونین کے مطابق قیدیوں کی تعداد میں اس بڑے پیمانے پر اضافے سے تاریخی طور پر رنگین فاموں کو سب سے بڑا دھچکا پہنچا ہے،یادرہے کہ ریگن دور کے آغاز میں اجتماعی قید کے وجود میں آنے سے رنگ برنگے لوگوں کو غیر متنازعہ طور پر قید کردیا گیا اور یہ رجحان آج بھی جاری ہے۔
تحقیق کے مطابق اس وقت امریکہ میں پیدا ہونے والے تین میں سے ایک سیاہ فام لڑکے کو بالآخر کسی نہ کسی وقت جیل میں جانا پڑتا ہےجبکہ یہ اعداد وشمار لاطینی نسل کے چھ افراد میں سے ایک کے لیے ہے،جبکہ سفید فام امریکی سترہ لڑکوں میں سے صرف ایک ہی جیل جائے گا،
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہر سال امریکہ میں 600000 نئے لوگ جیلوں میں داخل ہوتے ہیں۔