سچ خبریں:تیونس کی اسلام پسند جماعت کے رہنما نے اس ملک کی صورتحال کو خطرناک قرار دیتے ہوئے موجودہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے قومی مذاکرات پر زور دیا۔
تیونس کی اسلام پسند پارٹی النہضہ کے رہنما راشد الغنوشی نے پارلیمنٹ کے اس ملک کے متعدد سابق پارلیمنٹ ارکانوں کے خلاف اپیل کی فوجی عدالت کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بغاوت کرکے اقتدار میں آنے والی حکومت نے تیونس کے ججوں کو ہمارے (اپوزیشن) کے خلاف استعمال کیا ہے اور بسا اوقات انہیں دھمکی بھی دی گئی ہے.
یاد رہے کہ مارچ 2021 میں تیونس کی تحلیل شدہ پارلیمنٹ میں اسلام پسند دھڑے کے سربراہ سیف الدین مخلوف نے مشاہدہ کیا کہ ایئرپورٹ حکام نے دارالحکومت کے ہوائی اڈے پر تیونس کی ایک خاتون شہری کو سفر کرنے سے روک دیا ہے، اس کارروائی پر احتجاج کرتے ہوئے ان کی اور متعدد پارلیمنٹیرینز (کرامت اتحاد) کے ایئرپورٹ افسران کے ساتھ جھگڑا ہوا جو زدکوب تک جا پہنچا جس کے بعد مئی 2022 میں تیونس کے صدر کی جانب سے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور سیاسی جماعتوں پر سخت پابندیاں عائد کرنے کے اقدامات کے بعد ان نمائندوں کو 3 سے 6 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم حال ہی میں فوجی اپیل کورٹ نے انہیں 1 سے 5 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
تیونس کی صورتحال میں بااثر سیاسی جماعتیں اس ملک کے صدر قیس سعید کے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور اس ملک کی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر سخت پابندیاں عائد کرنے کے اقدامات کو اس ملک میں جمہوری عمل کے خلاف بغاوت قرار دیتی ہیں،الجزیرہ ٹی وی چینل کے مطابق راشد الغنوشی نے اس ملک کے عدالتی نظام کی طرف سے اپنے اور حزب النہضہ کے رہنماوں میں سے ایک کے خلاف جاری کیے گئے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ اس جماعت کے خلاف انتقامی کارروائی ہے اور اپوزیشن سے چھٹکارا حاصل کرنا.
یاد رہے کہ چند ماہ قبل تیونس کے عدالتی نظام نے النہضہ پارٹی کے رہنما اور ان کے نائب (تیونس کے سابق وزیر اعظم) کو اس ملک کے نوجوانوں کو خطرناک علاقوں (شام) میں بھیجنے اور منی لانڈرنگ کے الزام میں طلب کیا جبکہ اس جماعت نے بارہا ایسے الزامات کی تردید کی ہے ، تاہم عدالت راشد الغنوشی کے خلاف ملک چھوڑنے پر پابندی کے سوا کوئی فیصلہ جاری نہیں کر سکی لیکن ان کے نائب کو منی لانڈرنگ کے الزام میں کئی سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
الغنوشی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ قیس سعید ملک پر انفرادی خودمختاری پر اصرار کرتے ہیں، کہا کہ تیونس خطرے میں ہے اور ہم مفکرین اور ہمدردوں کی موجودگی کے ساتھ قومی مذاکرات کا مطالبہ کرتے ہیں اس لیے کہ تیونس کو کسی فرد یا گروہ کو باہر رکھے بغیر ایک قومی معاہدے اور پرامن بقائے باہمی کی ضرورت ہے ۔