سچ خبریں: روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے جمعے کے روز کازان میں ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ برکس گروپ کو ایک واضح قانونی شناخت کے ساتھ ایک مکمل بین الاقوامی تنظیم میں تبدیل کرنا ابھی بھی ایک مسئلہ ہے۔
اس بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کیا برکس کو قانونی شناخت کے ساتھ ایک مکمل بین الاقوامی تنظیم بننا چاہیے، ایک قانون اور ایک معاہدہ جس کی توثیق کی ضرورت ہے، ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ابھی بات چیت کی ضرورت ہے۔
قبل ازیں، برکس اجلاس کے اختتام کے بعد پریس کانفرنس میں ولادیمیر پیوٹن نے اس تقریب کو اس اتحاد میں روس کی صدارت کا اعلیٰ مقام اور عالمی سیاسی کیلنڈر کے اہم ترین واقعات میں سے ایک قرار دیا۔ پوتن نے کازان اجلاس میں شرکاء کی بڑی تعداد کی طرف بھی اشارہ کیا اور اسے برکس کی ساکھ کا اشارہ سمجھا۔
غیر ملکی میڈیا نے برکس اجلاس کو تمام جہتوں میں پوٹن کی فتح قرار دیا
امریکہ میں کازان میں برکس سربراہی اجلاس کو خارجہ پالیسی کے کئی شعبوں میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی فتح قرار دیا گیا ہے۔ ایک امریکی سیاسی ماہر جان میئر شیمر نے یوٹیوب چینل ججنگ فریڈم پر ایک ویڈیو میں کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ پوٹن جیت رہے ہیں۔ اس نے پابندیوں، میدان جنگ اور یہاں تک کہ جلاوطنی کے لیبل پر بھی قابو پالیا ہے۔ ان کے مطابق برکس بتدریج دنیا کا ایک زیادہ طاقتور اور بااثر گروپ بن جائے گا۔
گزشتہ روز امریکی میگزین نیوز ویک نے برکس اجلاس کو روس کی بلاشبہ کامیابی اور غیر مغربی ممالک کے نئے اتحاد کے بانی کے طور پر ملک کے کردار کی نمائندگی قرار دیا۔ اس اشاعت نے نشاندہی کی کہ اس واقعہ نے روس کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش میں مغرب کی کمزوری کو ظاہر کر دیا ہے اور یہ عالمی میدان میں ایک اہم واقعہ بن گیا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ برکس اجلاس نہ صرف روس کو تنہا کرنے میں مغرب کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ مغرب پر مبنی عالمی نظام سے ہٹ کر زیادہ سے زیادہ وکندریقرت کی طرف بڑھنے کے عمل کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
قبل ازیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے بھی کازان میں برکس اجلاس میں اعتراف کیا تھا کہ یہ اتحاد عالمی سلامتی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
روس میں برکس کا اجلاس مغربی دنیا کے لیے ایک انتباہ
نیویارک ٹائمز نے یہ بھی نوٹ کیا کہ جب ریاستہائے متحدہ صدارتی انتخابات میں مصروف ہے، پوٹن نے دنیا کی نصف آبادی کی نمائندگی کرنے والے رہنماؤں کی میزبانی کی۔ یہ ملاقات محض ایک یادگار تصویر لینے کا اجتماع نہیں تھا، بلکہ اس اشاعت کے مطابق، یہ ایک واضح پیغام تھا جو ظاہر کرتا ہے کہ پچھلی دہائی میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔
اخبار نے نوٹ کیا کہ کازان میں برکس سربراہی اجلاس کامیاب رہا جس میں چین سمیت تین درجن ممالک کے نمائندوں نے ایک مشترکہ بیان میں مصنوعی ذہانت سمیت مختلف شعبوں میں مضبوط تعاون کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ مصنف نے چینی صدر شی جن پنگ کی تقریر کا بھی ذکر کیا، جنہوں نے خود کو منصفانہ عالمی نظام کے محافظ کے طور پر پیش کیا اور یوکرین اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرنے پر زور دیا۔
جہاں مغربی ممالک نے ان کے الفاظ کو تنقیدی نظروں سے دیکھا، وہیں دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک نے چینی رہنما کے نقطہ نظر سے اتفاق کیا، کیونکہ وہ امریکی ہتھیاروں کے استعمال سے غزہ اور لبنان میں بڑے پیمانے پر تباہی دیکھ رہے ہیں۔