سچ خبریں:جب جو بائیڈن ریاستہائے متحدہ کے صدر بنے تو انھوں نے سعودی عرب کو ایک نامعقول ملک قرار دیا اور انسانی حقوق کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکز بنانے کا عزم کیا،تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں اور علاقائی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ریاض پر سنگین قیمتیں عائد کرنے سے گریزاں ہیں جس نے اس ملک کے حکمران محمد بن سلمان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی سزا سے بچنے کی حوصلہ افزائی کی ہے، جس میں اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانےجیسی چیزیں بھی شامل ہیں۔
ہل ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت اس بات پر زور دیتی ہے کہ سعودی حکام کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں وہ انسانی حقوق کے معاملے کو اٹھاتی رہتی ہے اور اس سلسلے میں واشنگٹن پوسٹ کے سعودی نژاد صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا معاملہ بھی اٹھاتا ہے جنہیں 2018 میں ایک سعودی قاتل اسکواڈ کے ذریعے ترکی میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا تھا،ان کے قاتلوں کو اس ملک کے ولی عہد کی حمایت حاصل تھی، تاہم اس کے باجود بائیڈن واشنگٹن اور ریاض کے درمیان تعلقات کو بھی اہم سمجھتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے جمعرات کو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں سعودی سکریٹری آف سٹیٹ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ امریکہ اور سعودی عرب دونوں ملک بہت اہم مسائل پر مل کر کام کر رہے ہیں جن میں آب و ہوا سے لے کر توانائی اور یمن اور ایران تک کے مسائل شامل ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ وہ انسانی حقوق کے شعبے میں مسلسل پیش رفت کے بارے میں بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو ہمیں سعودی عرب سے دیکھنے کی امید ہے،تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت کے اس قسم کے ریمارکس کو معمولی سمجھتے ہیں۔
درایں اثناانسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں حکومت مخالف افراد کو لاپتہ کرنے اور انہیں قید کرنے کا سلسلہ جاری ہےنیز سعودی جیلوں میں تشدد کے الزامات بڑے پیمانے پر رپورٹ کیے جا رہے ہیں جبکہ مبینہ جرائم کے لیے کئی دہائیوں کی قید کی سزائیں غیر متناسب ہیں۔