سچ خبریں: کرمان میں دہشت گردانہ حملے سے قبل ایران کو امریکی انتباہی پیغام موصول ہوا تھا لیکن یہ پیغام اتنا مبہم اور بدنیتی پر مبنی تھا کہ دہشت گردانہ حملے کو روک نہیں سکا۔
تہران ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 3 جنوری کو داعش کے دو دہشت گردوں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جب ہزاروں سوگوار کرمان شہر میں ایرانی شہید جنرل قاسم سلیمانی کے مقبرے کی طرف بڑھ رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: کرمان کی دہشت گردی کی کارروائی پر ترک تجزیہ کار کا نقطہ نظر
دہشت گردانہ حملے نے 100 کے قریب شہریوں کو بے دردی سے ہلاک کیا اور امریکہ کو ایک تیر سے دو اہداف کو نشانہ بنانے کا موقع فراہم کیا؛ایک طاقتور انٹیلی جنس طاقت کے طور پر ابھرنا اور دوسرا ایران کے سکیورٹی آلات کو کمزور کرنا۔
کرمان حملے کے چند ہفتے بعد جب ایرانی سکیورٹی فورسز مجرموں کا پیچھا کرنے اور ان میں سے کچھ کو گرفتار کرنے میں مصروف تھیں، وال سٹریٹ جرنل نے ایک خبر شائع کی کہ خراسان میں داعش کے حملے سے پہلے امریکہ نے ایران کو انتباہی پیغام بھیجا تھا۔
اس پیغام میں کہا گیا کہ یہ گروہ ایران کے اندر مہلک حملے کی تیاری کر رہا ہے لیکن وال سٹریٹ جرنل کے مطابق ایرانی حکام نے امریکی انتباہ کو نظر انداز کر دیا۔
اخبار نے اس انتباہ کے بارے میں لکھا کہ واشنگٹن نے تہران کو اس سازش کے بارے میں کاروائی کے لیے مفید معلومات فراہم کی جس میں 84 افراد ہلاک اور بہت سے زخمی ہوئے۔
تہران ٹائمز اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے کہ یہ پیغام ایران کو موصول ہوا لیکن مذکورہ پیغام اتنا مبہم اور بدنیتی پر مبنی تھا کہ وہ کرمان حملے کو کسی بھی طرح روک نہیں سکتا تھا۔
سب سے پہلے تو یہ کہنا چاہیے کہ اس پیغام میں دہشت گرد حملے کے وقت اور جگہ کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں، تہران ٹائمز کو معلوم ہوا کہ امریکی پیغام میں یہ نہیں بتایا گیا کہ داعش کا دہشت گردانہ حملہ کہاں اور کب ہو سکتا ہے، اور اسی لیے مذکورہ پیغام نے ایرانی حکام کو دہشت گردی کی درست نقل و حرکت کے بارے میں اندھیرے میں رکھا،یہ اس وقت ہوا جب ایرانی سکیورٹی فورسز نے اس طرح کے حملے کا اندازہ لگایا، جس سے انہیں پورے ملک میں حفاظتی اقدامات کو دوگنا کرنا پڑا۔
قابل غور ہے کہ دہشت گردانہ حملے سے پہلے کے مہینوں میں، ایران کی سکیورٹی فورسز نے درجنوں دہشت گردانہ حملوں کو ناکام بنایا اور ان میں ملوث افراد کو ان کے مذموم منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا، ان سخت حفاظتی اقدامات کے درمیان امریکی پیغام موصول ہوا، اس سے یہ وضاحت ہو سکتی ہے کہ امریکی پیغام ایران کے لیے کیوں بہت کم فائدہ مند تھا، کیوں کہ انسداد دہشت گردی کے حکام کے لیے اس طرح کے حملے کی پیش گوئی کرنا آسان تھا۔
امریکہ کا پیغام دسمبر میں زبانی طور پر سفارتی ذرائع سے پہنچایا گیا، جس سے اس کی سنجیدگی مزید کم ہو گئی، یہ امریکی پیغام کی عملییت پر سوالیہ نشان لگاتا ہے، اگر امریکہ کا ارادہ ایران کو مہلک حملے کو روکنے میں مدد کرنا ہوتا تو وہ آسانی سے تحریری طور پر ایران کے ساتھ اس حملے کی جگہ اور وقت بتا سکتا تھا۔
مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ کے اس اقدام کا مقصد امریکہ کو خطے میں دہشت گرد گروہوں سے تعلق کے کسی بھی الزام سے بری کرنا ہے،امریکیوں نے طویل عرصے سے دعویٰ کیا ہے کہ وہ شہریوں کی جانوں کا خیال رکھتے ہیں چاہے وہ دشمن ممالک سے ہی کیوں نہ ہوں، مذکورہ امریکی پیغام کا مقصد بھی اس مقصد کو حاصل کرنا تھا، تاہم، حقیقت میں، امریکہ نے مغربی ایشیائی خطے میں دہشت گردی کو فروغ دینے اور اسے اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مزید پڑھیں: کرمان دہشت گردانہ واقعہ کی عرب میڈیا میں کوریج
کرمان حملے میں نجات دہندہ کا کردار ادا کر کے امریکیوں نے ایران کی سکیورٹی فورسز کی ساکھ کو کمزور کرنے کی کوشش کی جبکہ ان فورسز نے اس گھناؤنے حملے کو روکنے کی پوری کوشش کی۔