سچ خبریں:افغانستان کے لیے امریکہ کے سابق خصوصی نمائندے زلمے خلیل زادنے امریکی ملٹری یونیورسٹی میں ایک تقریب کے دوران افغانستان سے فوج کے انخلاء اور اس ملک کی جنگ اور یوکرین میں فرق کے بارے میں تقریر کی۔
دہشت گردوں کو دور سے نشانہ بنانے کی امریکہ کی صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ کے پاس 2001 میں آج کی صلاحیتیں ہوتیں تو وہ 11 ستمبر کے حملوں کو روک سکتا تھا۔
خلیل زاد نے مزید کہا کہ امریکہ نے افغانستان سے انخلاء کیا کیونکہ اس ملک کو پرامن جمہوریت میں تبدیل کرنا اور دہشت گردی سے لڑنا اب امریکہ کی ترجیح نہیں رہا۔
امریکہ کے سابق خصوصی نمائندہ برائے افغانستان نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مسئلہ اب بھی اہم ہے لیکن اب یہ توجہ کا مرکز نہیں ہے اور چین اور بڑی طاقتوں کے مقابلے جیسے اہم مسائل نے زیادہ توجہ مبذول کرائی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ کو انتخاب کرنا چاہیے تھا کہ وہ اپنے وسائل کہاں خرچ کرے۔
خلیل زاد نے اعتراف کیا کہ امریکہ افغانستان میں قوم کی تعمیر اور اس ملک کو پرامن جمہوریت کی طرف تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔
سابق امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان کا کہنا تھا کہ اس مقصد میں ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان کو پرامن جمہوریت میں تبدیل کرنے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی اور ٹائم ٹیبل موجود نہیں تھا۔
ٹرمپ کے دورِ صدارت میں انھیں افغانستان میں امن کے لیے امریکی محکمہ خارجہ کا خصوصی نمائندہ منتخب کیا گیا تھا اور انھیں اس ملک کے جمہوری صدر جو بائیڈن کے دور میں بھی اس عہدے پر برقرار رکھا گیا تھا۔
18 ماہ کی بات چیت کے بعد خلیل زاد قطر میں اس وقت کے سیاسی دفتر کے سربراہ اور طالبان کے سیاسی نائب ملا برادر کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے میں کامیاب ہوئے۔