سچ خبریں: سابق صیہونی وزیراعظم نے امریکی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک اب تل ابیب کا قریبی اتحادی نہیں سمجھا جاتا۔
المعلومہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سابق صیہونی وزیر اعظم یائر لاپڈ نے اعتراف کیا کہ امریکہ اب اس حکومت کا قریبی اتحادی نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیتن یاہو کی کابینہ ہمیں ایک بڑے بحران کی طرف لے جا رہی ہے، یہ کابینہ اپنے کسی بھی اقدامات کے معاشی، سکیورٹی اور سیاسی نتائج کے بارے میں ضروری چھان بین کیے بغیر بڑی تبدیلیاں نافذ کرنا شروع کر دیتی ہے۔
لاپڈ نے کہا کہ تل ابیب اور واشنگٹن کے درمیان موجودہ کشیدگی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، یاد رہے کہ حال ہی میں وائٹ ہاؤس نے بنیامین نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کو فلسطینیوں کے ساتھ برتاؤ اور عدالتی اصلاحات کے بل کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بائیڈن اور نیتن یاہو ایک بار پھر آمنے سامنے؛کیا ہو سکتا ہے؟
امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن نے پہلے بھی نیتن یاہو کو مغربی کنارے میں آبادکاری جاری رکھنے کے بارے میں خبردار کیا تھا اور امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی تل ابیب کی موجودہ کابینہ کو انتہائی ریڈیکل کابینہ قرار دیا۔
لاپڈ نے مزید کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے شائع کردہ ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے ایک اسرائیلی گروپ کو 38000 ڈالر کی امداد دی ہے جو خود کو ایک آزاد غیر جانبدار گروپ کہتا ہے اور نیتن یاہو کی کابینہ کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وائٹ ہاؤس نے بارہا نیتن یاہو کی امریکہ جانے اور جو بائیڈن سے ملاقات کرنے کی درخواست کو مسترد کیا ہے، اس سے قبل صیہونی حکومت کے سماجی امور کے وزیر امیہائی شکلی نے کہا تھا کہ امریکہ اسرائیل میں ہونے والے مظاہروں کی حمایت کرتا ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ عدالتی اصلاحات کے منصوبے کے خلاف مقبوضہ علاقوں میں مظاہروں کو تیز کرنے میں امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا بنیادی کردار ہے۔
مزید پڑھیں: نیتن یاہو کی بائیڈن سے ناراض ہونے کی وجہ
شکلی نے کہا کہ جب بھی ان مظاہروں کو دبانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو مقبوضہ علاقوں میں مظاہروں کے بارے میں بائیڈن کے کا بیان آیا جاتا ہے جس سے لگتا ہے کہ بظاہر بائیڈن کے ریمارکس کی پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ مقبوضہ علاقوں میں احتجاج اور مظاہروں کو تیز کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔