سچ خبریں: اسرائیلی فوج نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے لبنان میں اپنے فوجی مقاصد حاصل کر لیے ہیں اور اس حکومت کی کابینہ تنازع کے خاتمے کے لیے سفارتی کوششوں میں اضافہ کر سکتی ہے۔
دو روز قبل حکومتی فوج نے سرکاری طور پر اعلان کیا تھا کہ اکتوبر میں 79 فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ بلاشبہ ہلاکتوں کی تعداد ان اعداد و شمار سے زیادہ ہے اور غیر صہیونی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی لبنان میں ہونے والی لڑائیوں میں اسرائیلی فوج نے 90 افراد کو ہلاک اور 750 کو زخمی کیا ہے۔
ان اعداد و شمار سے قطع نظر بڑا سوال یہ ہے کہ صہیونی فوج اب ہلاکتوں کی تعداد کیوں نہیں چھپاتی؟ کیا صہیونی فوج اور سیاست دانوں کے اندرونی اختلافات کے سلسلے میں رویے میں اس تبدیلی کو تلاش کرنا ممکن ہے؟
اس معمہ کو حل کرنے کے لیے ہمیں تین ماہ قبل واپس جانا پڑے گا جب چیف آف جنرل اسٹاف ہرزی حلوی اور صیہونی حکومت کی زمینی افواج کے کمانڈر یوول سٹرک نے اس بات پر زور دیا تھا کہ جنوبی لبنان میں زمینی اور بکتر بند کارروائیاں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ 2006 اور 1996 کی لڑائیوں کے تجربے کی بنیاد پر انہوں نے ریموٹ حملوں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے قتل کے تسلسل پر زور دیا۔
دوسری جانب جنگی وزیر یوو گیلانت، فضائیہ کے کمانڈر تومر بار اور صہیونی فوج کی شمالی کور کے کمانڈر امیر بارم نے زمینی داخلے کا مطالبہ کیا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ صرف فضائی حملے ہی حزب اللہ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ زمین کی تبدیلی پر توازن ہونا چاہیے۔