سچ خبریں: لبنان کے ایک اخبار نے تحقیق کی ہے کہ ابو عبیدہ نے خصوصی اور میڈیا اقدامات نیز صیہونی حکومت کے میڈیا دیو پر کیسے فتح حاصل کی ۔
لبنانی اخبار الاخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں تحریک حماس اور القسام بریگیڈز کے عسکری ترجمان ابو عبیدہ کی کرشماتی شخصیت کے بارے میں تحقیق کی ہے اور لکھا ہے کہ ابو عبیدہ کے چہرے کی تفصیلات کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں کہ ان کی شناخت کی جا سکے نیز ان کی تاریخ پیدائش یا مقام پیدائش کے بارے میں بھی معلومات دستیاب نہیں ہیں کہ ان کے ارد گرد کے ماحول تک رسائی حاصل کر سکے۔
یہ بھی پڑھیں: انسان دشمن کون ہے امریکہ یا حماس؟ حماس نے ثابت کر دیا
ان کا صرف وہی چہرہ ہے جس سے ہم سب اسے جانتے ہیں، اور وہ ہمیشہ اپنے چہرے پر سرخ ماسک پہنتے ہیں، جو فلسطین کی ثقافت اور تاریخ کی نمائندگی کرتا ہے۔
وہ فلسطینی تشخص کے دفاع کو ہی اپنی شناخت سمجھتے ہیں، اور یہ مسئلہ ایک ہتھکنڈے اور دکھاوے سے بڑھ کر ہے، یہ ایک عملی نوعیت کا ہے اور فلسطین کے دفاع کے راستے پر ان کے پختہ یقین کو ظاہر کرتا ہے۔
کیونکہ وہ اپنے بیان کے آخر میں ہمیشہ فتح یا شہادت کے حصول کے لیے فلسطین کے راستے پر جہاد کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جو شہید عزالدین القسام کے کلام سے لیا گیا ہے۔
ابو عبیدہ پہلی بار 2002 میں اپنے چہرے کو ڈھانپے ہوئے نظر آئے،یہ مسئلہ القسام بریگیڈز کے سابق سربراہ عماد عقل کے رویے سے ماخوذ ہے جسے صیہونی حکومت نے 1993 میں گرفتار کیا تھا،ان کی شہرت کا عروج اس دور میں ہے جب 25 جولائی 2006 کو القسام بٹالینز کے نمائندے کی حیثیت سے انہوں نے صہیونی فوجی گیلاد شالیت کو گرفتار کرنے کے جواب کے جواب میں ھدی غالیہ نامی ایک فلسطینی لڑکی کے گھر پر راکٹ حملہ کیا جس کی عمر 10 سال سے کم تھی۔
ابو عبیدہ نے اس وقت سے لے کر طوفان الاقصیٰ آپریشن اور ان دونوں واقعات کے درمیان ہونے والی تمام جنگوں تک اپنی آواز کا کرشمہ جاری رکھا اور ثابت کیا کہ ان کے پاس ایک خاص میڈیا اسکول ہے جو صیہونی حکومت کے میڈیا دیو پر قابو پانے میں کامیاب ہے۔
2014 میں عبرانی زبان کے میڈیا نے شاباک کے حکم پر، ایسی تصاویر شائع کیں جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ابو عبیدہ کی ہیں،ان میں سے ایک تصویر میں حذیفة سمیرعبدالله الکحلوت کا نام لکھا ہوا تھا جس کے بارے میں صہیونی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ابو عبیدہ کا اصلی نام ہے، تاہم تحریک حماس نے اس کی تردید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یہ معلومات غلط اور بے بنیاد ہیں۔
اس وقت کیے گئے دعوے اور ان دعووں کی تردید نے حفاظتی جہت سے زیادہ ابو عبیدہ کا کرشمہ دکھایا اور اپنے سامعین کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے میں اپنی کامیابی کا مظاہرہ کیا اور ثابت کیا کہ اس میدان میں انھوں نے فیصلہ کن کامیابیاں حاصل کیں۔
2021 میں سیف قدس جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی ابو عبیدہ ایک میڈیا لیجنڈ بن گئے اور اردن کی نوجوان نسل نے ان کی تقاریر کو بڑے شوق سے سنا اور مساجد نے ان تقاریر کو اپنے لاؤڈ اسپیکر سے نشر کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ انہیں سن سکیں،مصر میں اس حوالے سے بہت سے ترانے بنائے گئے جنہیں بچے دہراتے تھے۔
مزید پڑھیں: غزہ میں صیہونی قیدی کہاں ہیں؟
الجزائر میں اسکول کے بچوں نے اپنے ڈراموں میں ان کے کردار کو نبھانے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کیا، لبنان میں خاص طور پر بقاع کے علاقے میں اسکول کے امتحانات کے مواد میں ان کے بارے میں سوالات شامل کیے گئے اور انھیں اسلامی قوم کے ترجمان کے طور پر متعارف کرایا گیا،اس مسئلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو عبیدہ اسلامی قوم کے سماجی ماخذ کی نمائندگی کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنا بیان 7 اکتوبر کی صبح جاری کیا جس کے بعد 25 اکتوبر سے 10 دسمبر کے دوران میڈیا میں کوئی بیان نہیں دیا اور اس طرح صیہونی حکومت کے میڈیا نے یہ افواہیں پھیلائیں کہ وہ زخمی یا مارے گئے ہیں لیکن ابو عبیدہ میڈیا میں نظر آئے۔ اور انہوں نے اعلان کیا کہ مزاحمتی قوتیں عارضی جنگ بندی کے بعد دوبارہ حملے شروع کرنے کے بعد صیہونی فوجیوں کی 180 گاڑیوں کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوئیں،یہ نفسیاتی آپریشن جنگ کے آخری دو مہینوں میں ہونے والے پچھلے تمام واقعات کے تقریباً برابر تھا۔