سچ خبریں:متحدہ عرب امارات سمیت ، بحرین ، سوڈان اور مراکش چار عرب ریاستوں اور صہیونی حکومت کے درمیان ہونے والے ابراہیم نامی معاہدے پر دستخط کرنے کے ایک سال بعد ثابت ہوچکاہے کہ یہ معاہدہ تل ابیب کے حق میں تھا۔
صہیونی حکومت اور مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل سابق صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے2009 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ایک نئے باب میں داخل ہو چکا ہے، خطے کے ممالک کے ساتھ امن کے ہدف کے حصول کے لیے تل ابیب کی کوششیں 2020 تک جاری رہیں اور آخر کار صہیونی حکومت خلیج تعاون کونسل کی رکن دو عرب ریاستوں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
تاہم صہیونی حکومت کے ساتھ متحدہ عرب امارات ، بحرین ، سوڈان اور مراکش کی چار عرب ریاستوں کے درمیان ابراہیمی معاہدوں پر دستخط کے ایک سال بعد ایسا لگتا ہے کہ تل ابیب اب تک یہ معاہدے جیت چکا ہے کیونکہ سمجھوتہ کرنے والے ممالک نے اپنی مارکیٹیں اور سرحدیں قبضہ کرنے والوں کا سامان اور مصنوعات کے لیےکھول دی ہیں۔
واضح رہے کہ یہ کامیابی تل ابیب کو ایک ایسے وقت میں حاصل ہوئی ہے جبکہ سعودی عرب کی جانب سے بیروت میں عرب سربراہی کانفرنس میں پیش کردہ عرب امن اقدام 2002 سے کامیاب نہیں تھا، سعودی عرب کی جانب سے تجویز کردہ اور دوسرے ممالک کی جانب سے قبول کردہ اقدام کے مطابق صہیونی حکومت کو مشرقی یروشلم کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کرنا چاہیے ، فلسطینی مہاجرین کو ان کے وطن واپس جانے کی اجازت دینی چاہیے نیز صیہونیوں کو 1967 سے پہلے کی سرحدوں میں واپس چلا جانا چاہیے۔
اس طرح سے اس اقدام نے زمین کے خلاف امن کے قانون کی پاسداری کی اور بدلے میں خطے کے عرب ممالک نے صہیونی حکومت کو تسلیم کیا نیز اس غیر قانونی ریاست کے ساتھ تمام سیاسی ، معاشی ، سکیورٹی اور دیگر شعبوں میں عوامی سطح پر اپنے تعلقات کو قائم کیا اور ان میں توسیع کی،تاہم اس سے تل ابیب جو حاصل کرنے میں کامیاب رہا وہ زمین کے مقابلہ میں امن نہیں بلکہ امن کے مقابلہ میں امن ہے۔