(سچ خبریں) 12 سال تک اقتدار میں رہنے والے بنجمن نیتن یاہو آخر کار غزہ سے فائر ہونے والے میزائلوں کا مقابلہ نہ کرسکے اور اپنی ہی پارٹی کے افراد کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعد اسرائیلی غاصب حکومت سے باہر ہوگئے اور فلسطینی عوام کے خون سے رنگین 12 سالہ اقتدار کی عمارت ڈھیر ہوگئی۔
بنجمن نیتن یاہو اقتدار میں برقرار رہنے کیلئے تمام تر کوششوں اور اقدامات کے باوجود وزیراعظم کا عہدہ محفوظ نہ رکھ سکے اور یہ عہدہ ان سے چھن گیا، اگرچہ ان کا دعوی تھا کہ وہ اپنے اقتدار کے دوران دشمن طاقتوں، خاص طور پر ایران اور حزب اللہ لبنان کے خلاف خطے میں اسرائیل کی پوزیشن مضبوط اور مستحکم بنا دیں گے لیکن اپنی کسی آرزو تک پہنچے بغیر ہی انہیں اقتدار سے رخصت ہونا پڑ گیا۔
اسی طرح سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی کوئی ہتھکنڈہ کام نہ آیا اور سینچری ڈیل نامی منصوبہ، تل ابیب سے امریکی سفارت خانہ قدس شریف منتقل کرنا، گولان ہائٹس کو سرکاری طور پر صہیونی رژیم کی ملکیت قرار دینا، چند عرب ممالک سے اسرائیل کے دوستانہ تعلقات استوار کروانا اور اسرائیل دشمن ممالک کے خلاف اقتصادی پابندیاں اور فوجی اقدامات انجام دینا وغیرہ بے سود ثابت ہوئے۔
صہیونی رژیم کا شکست خوردہ وزیراعظم اپنے اقتدار کے آخری دن تک اس عہدے پر فائز رہنے کیلئے ہاتھ پاوں مارتا رہا اور انتہائی مکاری سے موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کو ایران کے خلاف فوجی اقدام کی دھمکی بھی دیتا رہا، اگرچہ جو بائیڈن بنجمن نیتن یاہو کی معزولی کے حق میں تھے لیکن بنجمن نیتن یاہو کی اس دھمکی کا مقصد اقتدار کی کرسی پر براجمان رہنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپس پلٹنے سے روکنا تھا۔
مقبوضہ بیت المقدس میں نیتن یاہو کے اشتعال آمیز اقدامات اور شدت پسند یہودی آبادکاروں کو پرچم ریلی منعقد کرنے کی ترغیب دلانے کے پیچھے بھی یہی مقاصد کارفرما تھے، لیکن ان میں سے کوئی بھی حربہ بنجمن نیتن یاہو کو ان کے مطلوبہ اہداف و مقاصد تک نہ پہنچا پایا۔
غزہ میں اسلامی مزاحمت کی جانب سے "شمشیر القدس معرکہ” بنجمن نیتن یاہو کے زوال اور سرنگونی کا باعث بن گیا، اکثر سیاسی ماہرین بنجمن نیتن یاہو کا موازنہ اسرائیل کے پرانے وزیراعظم ایہود اولمرٹ سے کر رہے ہیں جو جولائی 2006ء میں جنوبی لبنان میں اسرائیل کی ذلت آمیز شکست اور پسپائی کے بعد استعفی دینے پر مجبور ہو گئے تھے اور اس کے بعد عدالت میں ان کے خلاف کرپشن کے کئی کیسز کھل گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ لبنان کے وہ میزائیل جنہوں نے جولائی 2006ء میں اسرائیل کو عبرتناک شکست کا مزہ چکھایا اور ایہود اولمرٹ کی سرنگونی اور ان کی جگہ بنجمن نیتن یاہو کے برسراقتدار آنے کا باعث بنے، اب بھی اسرائیل کی تاریخ لکھنے میں مصروف ہیں، آج فلسطین کی اسلامی مزاحمت کے میزائل ایک اور اسرائیلی وزیراعظم کو اقتدار کی مسند سے نیچے کھینچ لائے ہیں۔
لیکن بنجمن نیتن یاہو یہ حقیقت قبول کرنے کیلئے تیار دکھائی نہیں دیتے کہ وہ وزارت عظمی کا عہدہ کھو چکے ہیں اور مستقبل میں بھی ان کی اس عہدے پر واپسی آسانی سے ممکن نہیں ہو پائے گی۔
اس بات کا واضح ثبوت کینسٹ میں ان کی حالیہ تقریر ہے جس میں انہوں نے نئی صہیونی کابینہ کو فضول اور غیر مفید قرار دیا ہے، ایسے حالات میں دو اہم سوال جنم لیتے ہیں: ایک یہ کہ کیا بنجمن نیتن یاہو کی واپسی واقعی ممکن ہے؟ اور دوسرا یہ کہ نیتن یاہو کے بعد صہیونی رژیم کی پالیسی اور حکمت عملی کیا ہو گی؟ پہلے سوال کے جواب میں یہ کہیں گے کہ نیفتالی بینٹ کی سربراہی میں نئی صہیونی کابینہ ایک کھچڑی نما کابینہ ہے جس میں مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کے افراد شامل ہیں۔
یہ اختلافات انتہائی بنیادی نوعیت کے ہیں جس کے سبب ہر لمحہ نئی کابینہ ختم ہو سکتی ہے، البتہ نئی صہیونی کابینہ کیلئے سب سے بڑا مثبت نکتہ جو بائیڈن کی سربراہی میں نئی امریکی حکومت کی حمایت سے برخوردار ہونا ہے، جو بائیڈن کی اس حمایت کا اصل مقصد نیتن یاہو سے سیاسی انتقام لینا ہے۔
اسی طرح سب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ نئی صہیونی کابینہ کی ناکامی اور خاتمے کی صورت میں صہیونی حکومت ایک اور پارلیمانی الیکشن کروانے پر مجبور ہو جائے گی لہذا سب اسی کوشش میں مصروف ہیں کہ اس کابینہ کو کامیاب کابینہ ظاہر کیا جائے، لیکن اس کے باوجود ہر لمحہ اس کابینہ کا زوال اور خاتمہ ممکن ہے، دوسری طرف اس کابینہ کے ممکنہ خاتمے اور نئے الیکشن کی صورت میں بھی نیتن یاہو کی واپسی کے امکانات بہت کم ہیں۔
نئی صہیونی کابینہ میں کوئی ایسا شخص دکھائی نہیں دیتا جو بنجمن نیتن یاہو کی طرح سینچری ڈیل آگے بڑھانے کا عزم راسخ رکھتا ہو، اسی طرح اس کابینہ میں عرب ممالک سے دوستانہ تعلقات مزید آگے بڑھانے کے محرکات بھی دکھائی نہیں دیتے، خاص طور پر نئے صہیونی وزیراعظم کے شدت پسندانہ اور عرب دشمنی پر مبنی افکار کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
نئی صہیونی کابینہ تشکیل پانے کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اسرائیل مختصر مدت کیلئے جنگ اور فوجی کاروائیوں سے دوری اختیار کر لے گا، البتہ اسلامی مزاحمتی بلاک نے اب تک حاصل ہونے والی عظیم کامیابیوں کے ذریعے بھی غاصب صہیونی حکومت کو یہ سبق سکھا دیا ہے کہ وہ کسی قسم کی فوجی جارحیت انجام دینے سے پہلے اچھی طرح سوچ لے اور بھیانک نتائج کا اندازہ لگا لے۔
نیتن یاہو کی ذلت اور رسوائی اس وقت دیکھنے جیسی تھی جب اسرائیلی پارلیمان میں اعتماد کے ووٹ کا اعلان ہوا تو نیتن یاہو ایوان میں وزیر اعظم کے لیے مخصوص کرسی میں واپس جا کر بیٹھ گئے، اس موقع پر ایوان کے عملے نے انہیں یاد دہانی کرائی اور انہیں حزب اختلاف کی بینچوں تک لے گئے۔
یہ اسرائیل کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم اور یادگار لمحہ تھا، نیتن یاہو کو تقریباً زبردستی ان کی کرسی سے ہٹایا گیا اور اس کے بعد اسرائیل کے سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے نیتن یاہو کی وزارت عظمیٰ کا دور ختم ہوا۔
گذشتہ 12 سال کے بعد اسرائیل میں کسی نئے وزیر اعظم کو موقع ملا ہے حکومت کا لیکن یہ حکومت متعدد جماعتوں پر مشتمل ہے اور یہی اس کی کمزوری کا باعث بھی بن سکتی ہے، نفتالی بینیٹ کے لیے یہ آسان نہیں ہوگا کہ اس اتحاد کو قائم رکھ سکیں، لیکن ایک طرف جہاں اسرائیلی جماعتوں میں آپسی اختلاف کا خدشہ ہے وہیں دوسری طرف سب سے بڑا خوف غزہ سے ہونے والے میزائل اور مزاحمتی تحریک کی بڑھتی طاقت کا ہے جس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ نئی حکومت کچھ ہی دنوں کی مہمان ہوگی اور بہت جلد اسرائیل میں پھر سے ایک بڑا سیاسی بحران پیدا ہوجائے گا۔