سچ خبریں:یمن کے ایک قلم کار اور صحافی علی الدروانی نے کہا کہ ریاض پہلے سے کہیں زیادہ جانتا ہے کہ جب تک جارحیت کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات نہ کیے جائیں مذاکرات کے ماحول کو مثبت بنانا کافی نہیں ہے۔
سعودی وفد کے یمن دورے کے سلسلہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے یمنی قلم کار اور صحافی علی الدروانی نے کہا کہ عمانی ثالث کے ساتھ سعودی وفد کا دورہ کسی حد تک مثبت رہا، یہ درست ہے کہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا تاہم یہ بھی نہیں کہا جا ستکا ہے کہ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں اور اسے یمن میں سعودی مطالبے کی حد کو کم کرنے کی علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جب کہ ریاض ماضی میں اپنی مانگ کی سطح کو بڑھا چکا تھا اور صنعا کے سینئر رہنماؤں کو قتل کرنے کی کوشش کر رہا تھا، لہٰذا سعودی عرب کی پڑوسی ممالک سے قربت کی پالیسی خطے سے امریکہ کے انخلاء کا باعث بن سکتی ہے جس کی طرف واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ نے بھی اشارہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کا ثالثی اور جنگ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اصرار جارحیت کی قیادت کرنے اور ناکہ بندی مسلط کرنے نیز کرائے کے فوجیوں کی رہنمائی اور یمن کے زیر قبضہ علاقوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ان کی مدد کرنے کے موجودہ کردار سے متصادم ہے۔ ایک طرف ریاض یمن کے سامنے شکست نہیں چاہتا تو دوسری طرف اس کے نتائج بھگتنے سے خوفزدہ ہے۔
الدروانی نے کہا کہ یمن پر جارحیت، قتل و غارت اور محاصرے جیسے جرائم امریکہ کی واضح مدد سے ہوئے اور سعودی عرب نے یمنی عوام کو اپنی حکمرانی یا اس کے غاصبوں کے تابع کرنے کی کوشش کی، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی طرفیمن میں جنگ کی آٹھویں برسی کے موقع پراپنے خطاب میںعبدالملک الحوثی نے اشارہ کیا اور زور دیتے ہوئے کہا کہ یمنی عوام کی لگن اور استقامت کا نتیجہ ہے کہ اس ملک کو سعودی قبضے سے رہائی ملی۔
انہوں نے کہا کہ امریکی اور مغربی میڈیا سعودی عرب کو مشتعل کرنے اور اس کی ناکامی کا مذاق اڑا رہے ہیں جس میں خود مغرب بھی شریک ہے جبکہ واشنگٹن دنیا میں اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیےچاہتا ہے کہ سعودی عرب اس جنگ میں الجھا رہے جبکہ سعودی عرب نے جنگ چھوڑنے کی اپنی سنجیدہ خواہش ظاہر کی ہے تاکہ غیر تیل کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے محمد بن سلمان کے بڑے اقتصادی منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکے،جن منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے امن اور استحکام کی ضرورت ہے اور یمن کے خلاف جارحیت کی جنگ ان تمام منصوبوں کوے لیے خطرہ ہے۔