سچ خبریں: ایک لبنانی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ صیہونی دشمن نے اپنے آخری ہتھیار کا استعمال قبل از وقت کیا ہے جو ان کے گہرے بحران اور ناقابل برداشت صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔
لبنانی روزنامہ الاخبار کے چیف ایڈیٹر اور خطے کے ممتاز تجزیہ کار ابراہیم امین نے اپنے ایک تجزیاتی کالم میں خطے کی موجودہ صورتحال اور مزاحمتی تحریک کے کردار پر روشنی ڈالی ۔
یہ بھی پڑھیں: پورے فلسطین میں صیہونی دشمن کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ جاری رہے گا:جہاد اسلامی
انہوں نے لکھا کہ بعض افراد حزب اللہ کے اقدامات کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام رہے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ حزب اللہ کے قریب ہیں جبکہ حقیقت میں وہ اس مزاحمتی گروہ کی قربانیوں میں شریک ہونے سے گریز کرتے ہیں۔
ان لوگوں نے غزہ کی حمایت کے معاملے میں بھی مختلف حساب کتاب کیے، جبکہ حزب اللہ نے اپنے طویل مدتی تجربات کی بنیاد پر اسرائیلی دشمن کے خلاف درست حکمت عملی اپنائی۔
انہوں نے لکھا ہے کہ حزب اللہ نے صیہونی ریاست کے ساتھ کئی دہائیوں کے تجربات سے سیکھا کہ اس دشمن کو کیسے ناکام بنانا ہے۔
حزب اللہ نے ایسی مزاحمتی حکمت عملی اپنائی جس کا مقصد فلسطین کے کاز کو محفوظ رکھنا اور دشمن کی طرف سے مزاحمت کو گھیرنے یا اسے کمزور کرنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانا تھا۔
امین کا کہنا ہے کہ حالیہ ایک سال میں مزاحمت کے اقدامات صیہونی دشمن کے خلاف مقابلے کی گہری سمجھ کو ظاہر کرتے ہیں، اور غزہ کے دفاع میں حزب اللہ کے اقدامات کی درستگی کا مزید ثبوت غزہ پر صیہونی ریاست کی جارحیت میں پایا جاتا ہے۔
غزہ کے لیے حزب اللہ کی حمایت دکھانے کے لیے یا علامتی نہیں تھی بلکہ اس نے عملی طور پر یہ ثابت کیا کہ اسرائیل ایک طویل اور فرسایشی جنگ کو مزید برداشت نہیں کر سکتا۔
اس کے برعکس، مزاحمت نے دشمن کے اقدامات اور ان کے نتائج کا بخوبی تجزیہ کیا اور ایک ایسی فوجی حکمت عملی اپنائی جو تمام ممکنہ نتائج سے آگاہی پر مبنی تھی۔
اگرچہ صیہونی دشمن نے کچھ عسکری اور سیکیورٹی آپریشنز میں کامیابی حاصل کر لی لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیوں دشمن نے ان کارروائیوں کو مکمل جنگ کے مرحلے تک موخر نہیں کیا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ صیہونی دشمن اس وقت ایک گہرے بحران اور دلدل میں پھنسا ہوا ہے، جس نے اسے پیجرز دھماکوں اور دیگر مواصلاتی سازوسامان کی تباہی جیسے بے مثال جرائم کرنے پر مجبور کر دیا۔
ابراہیم امین کے تجزیے میں لبنانی داخلی دشمنوں پر تنقید کی گئی ہے جو ہمیشہ بیرونی دشمنوں کی فتح کے لمحوں کو مزاحمت پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
امین کا کہنا ہے کہ یہ داخلی عناصر ان جرائم میں شریک ہیں اور انہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم اس وقت انتخابی قانون پر مذاکرات یا کسی سروس پروجیکٹ پر بات چیت کرنے کے مرحلے میں نہیں ہیں، بلکہ ایک ایسی جنگ میں ہیں جو ہم پر دشمن نے مسلط کی ہے۔
اس جنگ کا انتخاب، کسی کھانے کی فہرست سے کوئی ڈش چننے کی طرح نہیں ہے اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تل ابیب کی فلسطین میں جاری وحشیانہ جرائم کے باوجود اسرائیلی ریاست کے ساتھ ہم آہنگی ممکن ہے، وہ یا تو بے وقوف ہیں، یا خوف زدہ، یا پھر دشمن کی سازشوں میں شریک ہیں۔
امین نے مزاحمت کی قیادت کو تجربہ کار اور دوراندیش قرار دیتے ہوئے کہا کہ پچھلی چار دہائیوں میں مزاحمت کی قیادت نے اپنے منصوبوں اور حکمت عملیوں کی درستگی ثابت کی ہے۔
اس دوران، مزاحمت نے زبردست دباؤ کے باوجود اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں، اور اس کی ابتکار کرنے کی صلاحیت حیران کن ہے۔
ابراہیم امین نے حالیہ سکیورٹی بحران کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمت نے ثابت کیا ہے کہ اس کے پاس مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی صلاحیت اور مہارت موجود ہے۔
72 گھنٹوں کے دوران کیے گئے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مزاحمت نہ صرف اپنی جنگی سرگرمیاں جاری رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، بلکہ نئی حکمت عملیوں کی بنیاد پر اپنی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے اور نئی قیادت کو ابھارنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
مزید پڑھیں: صیہونی لبنان میں کتنے لوگوں کو مارنا چاہتے تھے؟ حزب اللہ کا اعلان
کالم میں مزید کہا گیا ہے کہ دشمن لبنان میں مزید کارروائیوں کے لیے تیار ہے، پچھلے 11 مہینوں میں اسرائیل نے 10 ہزار سے زائد حملے کیے ہیں اور حزب اللہ کے کچھ رہنماؤں اور مجاہدین کو شہید کیا ہے، لیکن وہ حزب اللہ کی ایک بھی کارروائی کو روکنے میں ناکام رہا ہے، حزب اللہ ابھی تک اپنے بڑے جنگی وسائل استعمال نہیں کر رہا، اور یہ ایسی حقیقت ہے جسے دشمن مزید آزما سکتا ہے۔