سچ خبریں: محمود عباس صاحب! ایران پر تنقید اور اس کے خلاف دعوے کرنے کے بجائے، براہ کرم صیہونیوں کے ساتھ 30 سالہ مذاکرات اور سمجھوتے کے ریکارڈ کا جائزہ لیں تاکہ شاید مظلوم فلسطینی خواتین اور بچوں کی لعنتوں اور بددعاؤں سے بچ سکیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی سربراہی میں ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو روک رہی ہے، اس اتھارٹی نے امام خمینی کی 35ویں برسی کے موقع پر آیت اللہ خامنہ ای کے بیانات پر تنقید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایران کی پالیسی فلسطینی عوام کی قربانی کا باعث بن رہی ہے، لیکن واقعی فلسطینی عوام کو کون قربان کر رہا ہے اور کرتا آیا ہے؟
30 سال مذاکرات کر کے فلسطین کی جغرافیائی حدود کو کم کرتی آئی فلسطینی اتھارٹی
فلسطینی اتھارٹی کو 30 سال ہو چکے ہیں، یہ 1994 میں اوسلو معاہدے کے بعد فلسطین لبریشن آرگنائزیشن اور صیہونی حکومت کے درمیان ایک پانچ سالہ عبوری حکومت کے طور پر قائم ہوئی تھی تاکہ اس دوران دونوں فریقوں کے حتمی مذاکرات ہو سکیں، اس اتھارٹی کی انتظامیہ کا صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت کے بجائے مذاکرات اور سمجھوتے پر زور ہے لیکن اس نے گزشتہ 30 سال میں صیہونیوں کے ساتھ مذاکرات کرکے فلسطین کی جغرافیائی حدود کو کم کرنے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا ہے،ابتدائی طور پر فلسطینی اتھارٹی 1948 کی سرحدوں پر زور دیتی تھی، لیکن بتدریج 1967 کی سرحدوں پر مشتمل مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مشرقی بیت المقدس میں فلسطینی ریاست کے قیام پر راضی ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینی اتھارٹی اور صیہونیوں کے درمیان کشیدگی
85 فیصد فلسطین کے جغرافیہ پر صیہونیوں کے قبضے کو جائز قرار دینے والی صدی کی ڈیل کے بعد بھی فلسطینی اتھارٹی اس کے صدر محمود عباس نے اس ڈیل کو روکنے کے لیے کوئی خاص اقدام نہیں کیا جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ اور بنیامین نیتن یاہو ایک اہم کامیابی پر خوش تھے، محمود عباس کی مذاکرات اور سمجھوتے کی پالیسی نے عملاً آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں کوئی مدد نہیں کی اور صیہونی حکومت نے دو ریاستی حل کو بھی قبول نہیں کیا بلکہ فلسطین کی سرزمین کے علاوہ کسی اور جگہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا۔
طوفان الاقصی اور فلسطینی اتھارٹی
طوفان الاقصی نے فلسطینی اتھارٹی اور اس کے صدر محمود عباس کی حقیقت کو سب سے زیادہ بے نقاب کیا، محمود عباس نے عملی طور پر فلسطین کو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں تقسیم کر دیا اور غزہ میں فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو کمزور کرنے کے لیے طوفان الاقصی کے مکمل فلسطینی آپریشن پر بہت تنقید کی، طوفان الاقصی آپریشن کے آغاز سے ہی مغربی کنارے میں خاص طور پر اس کے شمالی علاقوں میں 400 سے زیادہ افراد شہید ہو چکے ہیں، لیکن فلسطینی اتھارٹی نے صیہونیوں کے جرائم کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔
جب معمدانی اسپتال کے قتل عام میں 500 سے زائد افراد کے شہید کیے جانے کے بعد مغربی کنارے میں لوگ صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلے تو فلسطینی اتھارٹی نے لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا اور فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز بھی لوگوں کے درمیان احتجاج میں شامل ہو گئی تھیں تاکہ لوگوں کو مزید دبانے کی راہ ہموار ہو سکے۔
گزشتہ سال کے اختتام پر حماس نے دیگر فلسطینی گروپوں سے مشاورت کے بغیر فلسطینی اتھارٹی کے نئے وزیر اعظم کے انتخاب پر تنقید کی اور کہا کہ یہ قومی حکومت کے انتخاب کے طریقہ کار کے خلاف ہے جس کا فتح تحریک اور محمود عباس نے غیر معمولی سخت جواب دیا، انہوں نے صیہونیوں کے ساتھ ہم آہنگی میں حماس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ گروہ جو 7 اکتوبر کے واقعات اور غزہ پر دوبارہ قبضے اور یوم نکبت سے بھی بدتر دن کے ذمہ دار ہیں، ہمارے اوپر تنقید کرنے کے لائق نہیں ہیں!
محمود عباس اور ان کے زیر کنٹرول انتظامیہ کی جانب سے حماس پر الزامات اور دعوے ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی مکمل رکنیت کے منصوبے پر دوبارہ غور کی درخواست پر 143 موافق، 9 مخالف اور 25 غیر حاضر ووٹوں کے ساتھ قرارداد کی منظوری نے 7 اکتوبر کے بعد اور طوفان الاقصی کے دوران فلسطین کے حق میں طاقت کے توازن میں تبدیلی کی نشاندہی کی۔
فلسطینی اتھارٹی جس چیز کو فلسطینی ریاست یا دیگر حقوق کے حصول کے لیے ایک غلطی اور فلسطینیوں کے مفادات کے خلاف کارروائی قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے، اس کے برعکس طوفان الاقصی نے پہلی بار اقوام متحدہ میں فلسطین کی ریاست کی مکمل رکنیت کے منصوبے کو پیش کیا، اگرچہ امریکہ نے اسے ویٹو کر دیا، تاہم یہ ظاہر کرتا ہے کہ دو ریاستی حل کے دائرے میں بھی فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ مذاکرات اور سمجھوتے کے بجائے طوفان الاقصی اور طاقت ہے۔
اگر فلسطینی اتھارٹی یورپی ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو دو ریاستی حل کے تحت تسلیم کیے جانے کے حالیہ اقدامات پر بات کرنے کی جرات کرتی ہے تو یہ طوفان الاقصی کی وجہ سے ہے، کیونکہ اگر مذاکرات اور سمجھوتے کے ذریعے فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہوتا تو یہ گزشتہ 30 سالوں میں ہو چکا ہوتا۔
ایران کے خلاف نئے الزامات؛ صیہونیوں کے نفسیاتی پازل میں کھیل اور فلسطینی عوام کے دباؤ سے فرار
آیت اللہ خامنہ انی نے بارہا تاکید کی ہے کہ طوفان الاقصی مکمل طور پر فلسطینی ہے اور اسے فلسطینی مجاہدین نے انجام دیا ہے، انہوں نے اپنی حالیہ تقریر میں غزہ کی جنگ اور طوفان الاقصی میں صیہونی حکومت کی شکست اور فلسطینی مزاحمتی مجاہدین کی اہم کامیابیوں کے ابعاد بیان کیے، اس کے باوجود فلسطینی اتھارٹی کے بیان میں، جو مغربی کنارے کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے، کہا گیا ہے کہ ایرانی رہبر نے کہا کہ کسی کو بھی غزہ میں جنگ بندی کے حصول پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، یہ دعویٰ اس وقت کیا گیا جب آیت اللہ خامنہ ای کی تقریر میں اس طرح کا جملہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور ساتھ ہی ایران اور ایرانی حکام کی غزہ میں جنگ بندی کی ضرورت پر واضح موقف سے متصادم ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے اس بیان کا یہ حصہ صیہونیوں کے نفسیاتی پازل میں کھیل کا دعویٰ اور جھوٹ ہے، محمود عباس اور فلسطینی اتھارٹی جو فلسطینیوں میں السلطہ کے نام سے معروف ہیں،کے یہ بیانات اور الزامات طوفان الاقصی کے بعد گزشتہ 8 ماہ میں اپنی کارکردگی پر عوامی دباؤ سے بچنے کے لیے دیے گئے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی نے اپنے بیان کے دوسرے اور آخری حصے میں کہا ہے کہ یہ بالکل واضح ہے کہ ان بیانات کا مقصد فلسطینیوں اور ہزاروں خواتین، بچوں اور بزرگوں کی قربانی دینا ہے، ان بیانات کا مقصد فلسطینی سرزمین کو تباہ کرنا ہے اور آخر میں ایسے بیانات ہی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے،فلسطینی قوم 100 سال سے جنگ اور جدوجہد کر رہی ہے اور اب اسے ایسی جنگوں کی ضرورت نہیں ہے جو اس کی آزادی اور خودمختاری کے حصول میں مددگار نہ ہوں۔
پہلی نظر میں آیت اللہ خامنہ ای کے بیانات پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے ایک عجیب بے اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آیت اللہ خامنہ ای کی تمام باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس طرح ظاہر کیا ہے کہ جیسے طوفان الاقصی ایک علاقائی مسئلہ تھا، نہ کہ فلسطینی، حالانکہ آیت اللہ خامنہ ای نے بارہا اور یہاں تک کہ اسی تقریر میں بھی زور دیا ہے کہ طوفان الاقصی ایک فلسطینی کارروائی تھی اور صیہونیوں کے جرائم کا جواب تھی اور اس کے ساتھ طوفان الاقصی کے علاقائی اسٹریٹجک اثرات بھی تھے۔
آیت اللہ خامنہ ای کی اس بات پر غور کریں:
یہ طوفان الاقصی بالکل وقت پر اور اپنے لمحے میں پیش آیا، میں دعویٰ نہیں کر سکتا کہ کیا طوفان الاقصی کے منصوبہ سازوں کو معلوم تھا کہ وہ کتنا بڑا کام کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے جو کام کیا، وہ ایسا تھا جس کی جگہ کوئی اور چیز نہیں لے سکتی تھی، انہوں نے طوفان الاقصی آپریشن کے ذریعے مغربی ایشیا کے علاقے کے لیے ایک بڑی بین الاقوامی سازش کو ختم کر دیا۔
نتیجہ
فلسطینی اتھارٹی اور محمود عباس نے ایران کے خلاف دعوے ایسے وقت میں کیے ہیں جب عباس اور اتھارٹی نے فلسطین اور اس کے مفادات کے دفاع کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی نصف کوشش بھی نہیں کی ہے کیونکہ فلسطین کے مفادات کے دفاع سے ان کے صیہونی آقاؤں کو تکلیف ہوتی ہے، ایران کے وزیر خارجہ شہید حسین امیر عبداللہیان نے فلسطین کی آزاد ریاست، فلسطینی عوام اور غزہ کے لوگوں کے خلاف صیہونیوں کے جرائم کو اجاگر کرنے اور اس حوالے سے علاقائی اور عالمی فورمز میں اپنی موجودگی کا فائدہ اٹھانے کے لیے فلسطینی اتھارٹی سے کہیں زیادہ کوشش کی ہے۔
مزید پڑھیں: صیہونی حکومت اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان تعلقات
محمود عباس صاحب!، مسکراتے چہروں اور یادگار تصاویر کے ذریعے فلسطین کے مفادات کا صیہونی درندوں کے خلاف دفاع نہیں کیا جا سکتا، ایران پر تنقید اور دعوے کرنے کے بجائے، براہ کرم صیہونیوں کے ساتھ 30 سالہ مذاکرات اور سمجھوتے کے ریکارڈ کا جائزہ لیں تاکہ شاید آپ مظلوم فلسطینی خواتین اور بچوں کی لعنتوں اور بددعاؤں سے بچ سکیں، آج فلسطینی عوام آپ کو فلسطینیوں کا نمائندہ نہیں بلکہ فلسطین کی سرزمین پر صیہونیوں اور امریکیوں کا آلہ کار سمجھتے ہیں۔