سچ خبریں: ڈاکٹر رفیع محمد چودھری کو پاکستان میں سائنس اور فزکس کے سرخیل اور پاکستانی ایٹمی پروگرام کے "حقیقی خالق” کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ بات ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے 1998 میں لاہور میں کہی جب پاکستان نے بھارت کے جوابی ایٹمی تجربات کیے تھے۔
ڈاکٹر رفیع محمد چودھری یکم جولائی 1903 کو مشرقی پنجاب کے ضلع روہتک کے گاؤں کہنور میں پیدا ہوئے۔ وائسرائے روفس آئزکس کے وظیفے پر انہوں نے دلی سے 140 کلومیٹر دور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی۔ یہاں انہوں نے ایم ایس سی فزکس میں اول پوزیشن حاصل کی اور تمام سائنسی مضامین میں سب سے زیادہ نمبر لے کر طلائی تمغہ جیتا۔
یہ بھی پڑھیں: ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان انتقال کر گئے
ان کی کامیابیوں سے متاثر ہو کر بھوپال کے نواب حمید اللہ خان نے انہیں برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی میں مزید تعلیم کے لیے وظیفہ دیا۔ کیونڈش لیبارٹری میں ماہر طبیعات مارک اولیفانٹ نے انہیں نیوکلیئر فزکس پڑھنے کی طرف راغب کیا۔ 1932 میں، انہوں نے نوبیل انعام یافتہ سائنس دان ارنسٹ ردرفورڈ کی نگرانی میں نیوکلیئر فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
خالد محمود عاصم کی تحقیق کے مطابق، کیونڈش لیبارٹری کا وہ دور بہت شاندار تھا کیونکہ وہاں اس دوران ایٹم اور نیوکلیئر فزکس میں بہت پیش رفت ہوئی۔ وہاں سر جے جے تھامسن، لارڈ ردرفورڈ، آسٹن ولسن، کک روفٹ والٹن، اور سر جیمز چیڈویک جیسے سائنس دان کام کرتے تھے۔ ڈاکٹر رفیع محمد چودھری ہمیشہ اس بات پر فخر کرتے کہ وہ کیونڈش کے سنہری دور میں ردرفورڈ کے شاگرد تھے۔
30 سال کی عمر میں ڈاکٹر رفیع چودھری برطانوی ہندوستان واپس آئے اور لاہور کے اسلامیہ کالج میں فزکس پڑھانا شروع کیا۔ 1935 سے 1938 تک وہ یہاں شعبہ فزکس کے چیئرمین رہے۔ 1938 میں وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات کے سربراہ بن گئے۔ اسی دوران ان کی شادی نور جہاں چودھری سے ہوئی جن سے ان کے تین بیٹیاں اور سات بیٹے پیدا ہوئے
ڈاکٹر رفیع محمد چودھری کو برمنگھم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس میں بطور نوفلیڈ فیلو کام کرنے کے لیے مارک اولیفانٹ کی دعوت پر دوبارہ برطانیہ جانے کا موقع ملا۔
برطانوی میگزین ‘ڈاروینین’ کے مطابق، 1947 کے موسم بہار میں ڈاکٹر چودھری برمنگھم میں ایک سال گزارنے کے بعد کہنور واپس آئے۔ اس وقت کے تناظر میں بڑھتے تشدد کے سبب مسلمانوں نے پاکستان کی جانب ہجرت شروع کر دی تھی۔ ڈاکٹر چودھری نے اپنے خاندان کو سڑک کے ذریعے علی گڑھ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ ان کے سسرالی خاندان نے روہتک سے ٹرین کے ذریعے پاکستان جانے کا انتخاب کیا۔
خالد محمود عاصم کی تحقیق کے مطابق، قیام پاکستان کے فوراً بعد مارک اولیفانٹ نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو ایک خصوصی خط لکھا جس میں نئے ملک میں سائنس، خصوصاً ایٹمی اور نیوکلیئر فزکس کی تدریس و تحقیق کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے لکھا کہ پورے برصغیر میں ڈاکٹر رفیع چودھری سے بہتر کوئی مسلمان سائنسدان نہیں ہے اور انہیں فوری طور پر پاکستان بلانے کی سفارش کی۔
محمد علی جناح نے اولیفانٹ کے دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر رفیع محمد چودھری کو خط لکھ کر پاکستان آنے کی دعوت دی۔ اس کے ساتھ ہی وزارت تعلیم کو حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت پروفیسر رفیع محمد چودھری کو گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ فزکس کی سربراہی کی پیش کش کی گئی۔
جب ہندوستان کے وزیراعظم جواہر لال نہرو کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے پروفیسر رفیع چودھری کو نیشنل فزکس لیبارٹری میں ڈپٹی ڈائریکٹر شپ کی پیشکش کی، مگر انہوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔
برطانوی میگزین ‘ڈاروینین’ کے مطابق، حکومت پاکستان کی دعوت پر ڈاکٹر رفیع چودھری اپنے خاندان سمیت 1948 کے موسم گرما میں پاکستانی پنجاب کے علاقے عارف والا کے قریب ایک گاؤں میں اپنے سسرال چلے گئے۔ بعد میں وہ لاہور آ کر گورنمنٹ کالج لاہور میں شامل ہو گئے اور علی گڑھ یونیورسٹی سے استعفیٰ دے دیا۔
ڈاکٹر رفیع چودھری کے بیٹے، ڈاکٹر منور چودھری، جو کیونڈش لیبارٹری سے منسلک ہیں، نے ای میل کے ذریعے بات چیت میں بتایا کہ ان کے والد اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان میں مسلمانوں کا مستقبل زیادہ محفوظ ہے۔
انہوں نے کہا، "1948 میں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کی پروفیسری اور سربراہی چھوڑ دی، جہاں وہ مستحکم حیثیت میں تھے، اور گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ فزکس کی پروفیسری اور سربراہی کے لیے حکومت پاکستان کی دعوت قبول کی۔”
ڈاروینین میں چھپے مضمون میں مزید بتایا گیا کہ ڈاکٹر رفیع چودھری کو لاہور میں گالف روڈ پر ایک خاص رہائشی علاقے میں ایک بڑا سرکاری مکان الاٹ کیا گیا، جہاں اعلیٰ سرکاری افسران اور وزراء رہتے تھے۔
منور چودھری کے مطابق، ڈاکٹر رفیع چودھری ایک خیال رکھنے والے والد تھے اور چاہتے تھے کہ ان کے تمام بچے لاہور میں بہترین تعلیم حاصل کریں۔ تاہم، وہ اپنی تدریس اور تحقیق میں اس قدر مصروف تھے کہ بچوں کی تربیت کے لیے وقت نہیں نکال پاتے تھے۔ اس کے باوجود، وہ ہر بچے کی تعلیمی کارکردگی پر گہری نظر رکھتے تھے۔
"میرے علاوہ میرے سات بہن بھائیوں نے فزکس میں ایم ایس سی کیا، ایک بھائی نے کیمسٹری میں ایم ایس سی کیا، اور ایک بھائی، اظہر چودھری، ایف ایس سی کے بعد شارٹ سروس کمیشن پر فوج میں بھرتی ہوئے اور وہاں بی ایس سی کیا۔ دو بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔”
ڈاکٹر رفیع چودھری کے پوتے اور اظہر چودھری کے بیٹے، عثمان چودھری، اپنے دادا کی زندگی اور ان کے کارناموں پر مبنی ایک فلم بنا رہے ہیں۔
’رفیع: دی ان ٹولڈ سٹوری‘ نامی اس فلم کا ٹیزر یوٹیوب پر موجود ہے۔ اس ٹیزر میں اداکار عفان وحید، سونیا حسین، اور دیگر فنکار انگریزی، اردو، اور رانگڑی زبانوں میں ڈاکٹر رفیع چودھری کی ملک کے انتخاب کی کشمکش کو عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔
امریکہ میں مقیم ڈاکٹر رفیع چودھری کے 41 سالہ سافٹ ویئر انجینئر پوتے، عثمان چودھری نے گفتگو کے دوران بتایا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی صحیح عکاسی کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’مقصد یہ بتانا ہے کہ سائنس اور اسلام متضاد نہیں ہیں، دونوں ایک ساتھ چل سکتے ہیں۔‘
عثمان چودھری نے مزید کہا کہ ’میں بہت چھوٹا تھا جب میرے دادا کا انتقال ہوا۔ میں نے ان کی زندگی کے بارے میں خاندان، رشتہ داروں، ساتھیوں، اور شاگردوں سے بات کر کے ڈیٹا اکٹھا کیا۔‘
فکشن اور بائیوگرافی پر مبنی اس فلم کے لیے وہ اس وقت فنڈ ریزنگ کر رہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ یہ فلم اگلے سال ریلیز ہو جائے۔
فیروز حسن خان اپنی کتاب ’ایٹنگ گراس: دی میکنگ آف پاکستانی بم‘ میں لکھتے ہیں کہ برصغیر کی تقسیم کے وقت سائنسی سرمایہ یکساں طور پر تقسیم نہیں کیا گیا تھا۔
’کونسل برائے سائنسی اور صنعتی تحقیق ہندوستان بھر میں کئی تجربہ گاہوں کی نگرانی کرتی تھی، لیکن یہ سب تقسیم کے بعد انڈیا کے حصے میں آئیں۔‘
پاکستان کی ایٹمی کوششوں کی پہلی دہائی میں کیمبرج سے تعلیم یافتہ تین طبیعیات دانوں نذیر احمد، ڈاکٹر رفیع محمد چودھری، اور ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات شامل ہیں۔ اگر رفیع چودھری بنیادی طور پر ایک ماہر تعلیم تھے، تو ڈاکٹر عبدالسلام ایک سائنسدان اور تیسرے رکن ایک منتظم تھے۔ انہیں ادارے بنانا اور پاکستانی سائنسدانوں کی اگلی نسل کی شناخت بنانا اور ان کی تربیت کرنا تھی۔
سنہ 1954 میں، ڈاکٹر رفیع محمد چودھری نے جوہری تحقیق کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ فزکس میں ہائی ٹینشن لیبارٹری کی بنیاد رکھی۔
انہیں سائنسی برادری میں ’استادوں کے استاد‘ کا خطاب ملا۔ جب ان کے ایک طالب علم منیر احمد خان نے 1986 میں ان کا تعارف صدر ضیا الحق سے کروایا تو صدر نے ہاتھ اٹھا کر رفیع چودھری کو پاکستان کی ایٹمی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے پر سلام پیش کیا۔
ہارون شعیب کے مطابق، ڈاکٹر چودھری کے شاگرد ڈاکٹر این ایم بٹ یاد کرتے ہیں کہ کس طرح ڈاکٹر رفیع چودھری عام طور پر کم از کم دو گھنٹے مسلسل لیکچر دیتے تھے اور دن میں 12 گھنٹے کام کرتے تھے۔
ڈاکٹر بٹ کہتے ہیں، ’ڈاکٹر رفیع چودھری شام کو دیر گئے لیبارٹری سے باہر آتے اور طلبہ کے ہجوم میں گھرجاتے اور ان کی خوشی دیدنی ہوتی تھی، جیسے وہ ایک نئے دن کا آغاز کر رہے ہوں۔‘
ڈاکٹر رفیع چودھری طلبہ کے ساتھ بہت ہمدردی رکھتے تھے اور ضرورت مند طلبہ کی مالی مدد بھی کرتے تھے، لیکن طلبہ کی معمولی سی خدمت بھی قبول نہ کرتے۔ وہ روزانہ چھ میل تک باقاعدگی سے پیدل چلتے تھے اور ان کی روزانہ کی خوراک میں تھوڑی سی اُبلی سبزیاں اور دن بھر میں اکثر چائے شامل ہوتی تھی۔
خوارزمی سوسائٹی اور انٹرایکٹ کلب کے زیراہتمام 30 نومبر 1998 کو اپنے لیکچر میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ڈاکٹر چودھری کو پاکستانی ایٹمی پروگرام کا ’حقیقی خالق‘ قرار دیا تھا۔
انہوں نے کہا، ’ہائی ٹینشن لیبارٹریز میں ایک ایٹم ایکسلریٹر نصب کیا گیا اور اس سے اعلیٰ سطحی تحقیق ممکن ہوئی۔ اس لیبارٹری سے تربیت حاصل کرنے والے متعدد طلبہ پاکستان اور بیرون ملک اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔
ڈاکٹر رفیع چودھری نے طبیعیات دانوں کی ایک ٹیم تیار کی جو اب پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی قیادت کر رہی ہے۔‘
ڈاکٹر مبارک مند نے مزید کہا، ’ان کے ابتدائی شاگردوں میں سے ایک ڈاکٹر طاہر حسین تھے جو میرے استاد ہیں اور دوسرے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر اشفاق احمد ہیں۔‘
ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے ڈاکٹر منور چودھری نے کہا، ’ڈاکٹر مبارک مند کی بات بالکل درست ہے۔ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد زیادہ تر ہندو اساتذہ انڈیا چلے گئے، جس کی وجہ سے پاکستان میں فزکس کے اساتذہ اور سائنسدانوں کی شدید کمی ہو گئی تھی۔ ڈاکٹر رفیع چودھری نے اس چیلنج کو قبول کیا اور حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔‘
ڈاکٹر منور چودھری نے مزید بتایا، ’ڈاکٹر رفیع چودھری نے حکومت پاکستان کو ایک نئی لیبارٹری بنانے کی تجویز دی، جہاں جوہری اور نیوکلیئر فزکس پر تحقیق کی جا سکے۔ حکومت نے ان کی تجویز کو قبول کیا اور اس نئی لیبارٹری کا نام ’ہائی ٹینشن اینڈ نیوکلیئر ریسرچ لیبارٹری‘ رکھا گیا۔ (ہائی ٹینشن کا مطلب ہے ہائی وولٹیج، جو چارج شدہ ذرات کو تیز کرنے کے لیے درکار ہے)۔‘
مزید پڑھیں: ایٹمی سائنسدان کی سرکاری اعزاز کیساتھ تدفین کی جائے گی: شیخ رشید
’ایم ایس سی فزکس کے طلبہ کی تعداد 20 سے 30 ہوتی تھی جو جوہری فزکس میں تحقیقی کام کرنے کے لیے لیبارٹری آتے تھے۔ تمام طلبہ کو پروجیکٹس تفویض کیے جاتے جن کی نگرانی ڈاکٹر رفیع چودھری خود کرتے تھے۔ ان نئے قابل سائنس دانوں نے یونیورسٹیوں اور راولپنڈی کے قریب نئے بننے والے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں اہم پوزیشنیں سنبھالیں۔ زیادہ تر انہی سائنسدانوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ترقی میں مدد کی۔‘