(سچ خبریں) ایک طرف جہاں دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد اور غاصب ملک اسرائیل، بے گناہ مظلوم فلسطینیوں کے خلاف کھلے عام دہشت گردی کررہا ہے اور دنیا کو اس کی دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے لیکن دوسری طرف عالمی برادری اور خاص کر مغربی ممالک اس دہشت گردی کی مذمت کرنے کے بجائے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف ہی بیانات جاری کررہے ہیں کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیئے وہ اپنا دفاع کیوں کررہے ہیں؟؟؟!!!
عالمی برادری نے نہایت ہی منافقانہ رویہ اپناتے ہوئے غزہ میں اسرائیل کے دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں بچوں سمیت سینکڑوں افراد کے شہید ہونے اور سینکڑوں افراد کے زخمی ہونےکی شدید مذمت تو کی ہے لیکن اسرائیل کو حملوں سے روکنے کے بجائے صرف فریقین سے تشدد میں کمی کا مطالبہ ہی کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ دہشت گرد اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی پر سینکڑوں فضائی حملے کیے ہیں جبکہ فلسطینیوں کی جانب سے بھی ایک ہزار سے زیادہ راکٹ فائر کیے گئے جس کے نتیجے میں دونوں فریقین کے درمیان 7 سال کے بعد بدترین تشدد نے جنم لیا ہے۔
اقوام متحدہ اور دیگر اداراں سمیت کئی ممالک کے رہنماؤں نے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
انتونیو گوتریس کے ترجمان نے کہا کہ سیکرٹری جنرل کو غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں اور غزہ سے داغے گئے راکٹوں سے بچوں سمیت معصوم فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی شہادت پر افسوس ہے، لیکن کیا صرف افسوس کرنے سے شہید ہونے والے افراد کا حق ادا ہوجائے گا؟ کیا اقوام متحدہ کی ذمہ داری صرف مذمتی بیان جاری کرنا ہے؟؟
سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے کہا کہ اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنی طاقت کے استعمال کے عمل کو جانچنا چاہیے، اسرائیلی آبادی کے مراکز کی جانب اندھا دھند راکٹ اور مارٹر فائر کیا جانا ناقابل قبول ہے۔
دوسری جانب امریکا جو دنیا کے تمام دہشت گردوں کا سربراہ اور انہیں ہر قسم کی مدد فراہم کرتا ہے اس نے بھی اسرائیل کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے فلسطینیوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین پساکی نے کہا کہ اسرائیل کا یہ جائز حق ہے کہ وہ حماس کے راکٹ حملوں سے اپنا دفاع کرے لیکن مقبوضہ بیت المقدس(یروشلم) کو باہمی احترام کا حامل مقام ہونا چاہیے، صدر جو بائیڈن اسرائیل کی سلامتی کے ساتھ ساتھ وہاں کے عوام کے جائز حق کے دفاع کی حمایت پر کبھی بھی نہیں ڈگمگائیں گے۔
ادھر دہشت گردوں کے ایک اور حامی یورپی یونین کا کہنا تھا کہ اسرائیل پر فلسطینی راکٹ حملے سراسر ناقابل قبول ہیں اور انہوں نے تمام فریقین سے مطالبہ کیا کہ وہ اشتعال انگیزی کو ختم کریں تاکہ مزید شہری ہلاکتوں سے بچا جا سکے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزیپ بوریل نے مشرقی یروشلم سے فلسطینی خاندانوں کی بے دخلی کی بھی مذمت کرتے ہوئے انہیں غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ اس اقدام سے صرف تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
بورس جانسن نے کہا کہ بڑھتے ہوئے تشدد اور شہری ہلاکتوں پر برطانیہ کو شدید تشویش ہے اور ہم کشیدگی میں فوری کمی دیکھنا چاہتے ہیں۔
دہشت گردوں کے ایک دوسرے حامی جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیل پر راکٹ حملہ بالکل ناقابل قبول ہے اور اسے فوری طور پر ختم ہونا چاہیے، اسرائیل کو اس صورتحال میں اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، تشدد میں اضافے کو نہ تو برداشت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی قبول کیا جاسکتا ہے۔
عرب لیگ جو اس وقت اسرائیل کی آلہ کاری بنی ہوئی ہے اور اسے صرف اپنے مفادات سے ہی مطلب ہے اس نے بھی صرف مذمتی بیان سے ہی کام چلانے میں اپنی عافیت سمجھی ہے۔
عرب لیگ کے سربراہ احمد ابوالغیط نے کہا کہ اسرائیلی فضائی حملے غیر ذمہ دارانہ ہیں، اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس میں اشتعال انگیزی میں خطرناک حد تک اضافے کا ذمہ دار ہے اور انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ تشدد کو روکنے کے لیے فوری طور پر کردار ادا کرے۔
لیکن ان سب بے غیرتوں کے درمیان صرف ایک تنہا ملک ایران ہے جو ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کا کھل کر ساتھ دیتا آیا ہے اور ایران نے آج تک فلسطینیوں کو اسلحے سمیت ہر قسم کی مدد فراہم کی ہے اور اب بھی ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے فلسطینیوں کی حمایت میں کھل کر نہ صرف بیان جاری کیا ہے بلکہ ان کی ہر ممکنہ مدد کرنے کا بھی اعلان کردیا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ صہیونی طاقت کی زبان کے سوا کچھ نہیں سمجھتے لہٰذا فلسطینیوں کو اپنی طاقت اور مزاحمت میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ وہ مجرموں کو ہتھیار ڈالنے اور مزاحمت پر مجبور کر سکیں۔
ترکی جو ایک منافق ملک کا رول ہی ادا کرتا آیا ہے اور اس کے اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے تجارتی اور سفارتی تعلقات ہیں اس نے بھی دنیا کو دکھانے کے لیئے بس ایک مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے ہمیشہ کی طرح اپنی منافقت کا ثبوت دے دیا ہے۔
ترکی کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اسرائیلی حکومت کو آخر کار یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ بلاامتیاز طاقت کا استعمال کرکے فلسطین کے عوام کے جائز حقوق اور مطالبات کو دبانے میں کامیاب نہیں ہو گی۔
اسلامی تعاون تنظیم جو ایک ناکارہ اور نام نہاد اسلامی تنظیم ہے اس نے بھی ہمیشہ کی طرح بس یہی کہا ہے کہ اسرائیل کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے اور تھوڑی سی فلسطینیوں کی تعریف بھی کردی ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم نے مقبوضہ بیت المقدس میں موجود فلسطین کے عوام کے غیرمتزلزل عزم اور استحکام اور مقدس مقامات پر اسرائیلی حملوں کے خلاف ان کے ردعمل کی تعریف کی۔
ان تمام بیانات سے اس بات کا بالکل اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا میں ظلم اور ظالم کا ساتھ دینے والے دہشت گردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جبکہ حقیقی اسلام پر عمل کرتے ہوئے مظلوموں کی حمایت کرنے والے افراد بہت کم ہیں لیکن خدا کا بھی یہ وعدہ ہیکہ کم لوگ اگر خدا پر ایمان اور یقین رکھتے ہوں تو وہ یقینا کامیاب ہوں گے اور ان شاءاللہ فلسطینی قوم بھی ایک دن ضرور کامیاب ہوگی۔