واشنگٹن (سچ خبریں) یہ 21 مئی 2021 کی شام ہے۔اسرائیل کے یہودی اپنا شبوعوت نامی مذہبی تہوار منانے کی تیاری کر رہے ہیں، اچانک اسرائیلی شہر، اشدود میں زوردار آواز سے سائرن بجنے لگے، یہ اس بات کی علامت تھی کہ شہر پہ پھر غزہ سے راکٹوں کا حملہ ہو چکا ہے، اچانک سے تمام شہری اپنے تہوار کی تیاریاں چھوڑ چھاڑ پناہ گاہوں کی جانب دوڑ پڑے، ان کی ساری خوشی دھری کی دھری رہ گئی، آخر ان اسرائیلی شہریوں کو بھی دلیر اہل غزہ کی طرح احساس ہوا کہ جب موت تعاقب میں ہو تو انسان پہ کیا بیتتی ہے! اور رونگٹے کھڑے کر دینے والا جذبہ سر تا پا دوڑ جاتا ہے۔
عمدہ چال: پچھلے ایک ہفتے سے اسرائیل کے کئی شہروں اور قصبوں میں آباد لاکھوں اسرائیلی شہریوں کی روزمرہ زندگی مجاہدین ِغزہ کے راکٹوں نے اتھل پتھل کر دی تھی۔اسرائیلی حکومت نے اپنے شہریوں کو یقین دلا رکھا تھا کہ اس کا میزائیل شکن نظام غزہ سے آنے والے راکٹوں کو فضا ہی میں تباہ کر دے گا، مگر اس بار مجاہدین نے ایسی عمدہ چال چلی کہ زبردست اور انتہائی ترقی یافتہ سمجھا جانے والا اسرائیلی نظام تمام راکٹ فضا میں نہیں پھوڑ سکا۔چناں چہ کئی سو راکٹوں نے سرزمین ِاسرائیل پہ گر کر ایسی مادی و نفسیاتی تباہی پھیلا دی جو وہاں کے شہریوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ وہ حیران پریشان ہو گئے کہ مجاہدین غزہ نے یہ کرشمہ کیسے کر دکھایا؟ اسرائیلی حکومت اور اس کے حواریوں میں بھی حیرت،سنسنی اور پریشانی پھیل گئی۔
شیح جراح کو بچاؤ: اسرائیلی حکومت اور مجاہدین غزہ کے مابین نئے معرکے کا آغاز تین ماہ قبل ہوا ۔قصّہ یہ ہے کہ مشرقی بیت المقدس میں شیخ جراح نامی ایک محلہ واقع ہے، اسرائیلی حکومت کی پشت پناہی سے یہودی آبادکار وہاں عشروں سے بستے فلسطینی مسلم خاندانوں کو زور زبردستی سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں، محلے میں آباد نوجوان مسلم لڑکے لڑکیوں نے سرکاری سر پرستی میں ہونے والے اس ظلم کے خلاف سوشل میڈیا میں #SaveSheikhJarrah کے نام سے ایک مہم چلا دی، مشرقی بیت المقدس میں لاکھوں مسلمان بستے ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے ان میں یہ مہم مقبول ہو گئی۔رفتہ رفتہ بہت سے نوجوان اہل شیخ جراح کی حمایت میں مظاہرے کرنے لگے، جب اسرائیلی پولیس نے پُرامن مظاہرین پہ ربڑ کی گولیاں برسائیں، لاٹھی چارج کیا،آنسو گیس پھینکی اور گندا،بدبودار پانی پھینکا تو قدرتاً مسلمانان مشرقی بیت المدس کا غم وغصّہ سوا ہو گیا، وہ پھر بڑی تعداد میں جمع ہو کر احتجاج کرنے لگے، یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ اوائل مئی میں اسرائیلی پولیس مظاہرین کا تعاقب کرتے القدس شریف میں داخل ہو گئی۔یوں اس نے مسلمانان عالم کے تیسرے مقدس مقام کی بے حرمتی کر ڈالی۔اس پر پورے عالم اسلام میں احتجاج ہونے لگا۔
مجاہدین کا الٹی میٹم: اسلامی ممالک کی حکومتوں اور عوام نے تو زبانی احتجاج پر اکتفا کیا مگر مسلمانانِ غزہ کی جہادی تنظیموں خصوصاً حماس اور اسلامی جہاد نے اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کو دھمکی دی کہ 10مئی کی شام چھ بجے تک یہودی پولیس القدس شریف سے دور نہ ہوئی تو اس پہ راکٹ حملہ کر دیا جائے گا، اسرائیلی حکومت نے مجاہدین غزہ کے انتباہ پر کان نہ دھرے۔ چناں چہ دس مئی کی شام چھ بجتے ہی غزہ سے سات آٹھ راکٹ مغربی بیت المقدس کی سمت داغ دئیے گئے۔اس حملے کے فوراً بعد اسرائیلی طیارے غزہ پر میزائیل اور بم پھینکنے لگے۔اسرائیلی ٹینکوں نے بھی علاقے پہ گولہ باری شروع کر دی۔
نینتن یاہو کی خوش فہمی: بعض ماہرین کا دعوی ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم،بنجمن نیتن یاہو پر کرپشن کے مقدمات چل رہے ہیں۔مذید براں وہ چند برس سے مسلسل ہونے والے قومی انتخابات میں اکثریت حاصل نہیں کر پایا۔لہذا اس نے مجاہدین غزہ سے دانستہ لڑائی چھیڑ دی۔ایک مقصد یہ تھا کہ اسرائیلی عوام کی توجہ اس پہ چلتے مقدمات سے ہٹ جائے۔دوسرے وہ بھارتی وزیراعظم مودی کی طرح دشمن سے لڑائی چھیڑ کر عوام میں ہیرو بننا چاہتا تھا۔مگر مجاہدین کی حکمت عملی اور عالم اسلام میں خلاف توقع زبردست احتجاج نے نیتن یاہو کی اُمیدوں پر اوس گرا دی۔حالیہ مجادلے میں اسے فائدے کے بجائے نقصان زیادہ ہوا۔
دنیا کا سب سے بڑا قیدخانہ: ارض فلسطین میں غزہ کا علاقہ اسرائیل اور مصر کے درمیان بحیرہ روم پر واقع ہے۔محض پچیس میل لمبا اورچھ میل چوڑا ہے۔اس چھوٹے سے علاقے میں بیس لاکھ سے زائد نفوس بستے ہیں۔یہ دنیا کی گنجان ترین انسانی بستیوں میں سے ایک ہے۔سبھی باشندے فلسطینی مسلمان ہیں۔ان میں سے بیشتر جنگ 1948ء سے قبل اسرائیل کے علاقوں میں بستے تھے۔دوران جنگ یہودی فوج نے انھیں بے گھر کر ڈالا۔چناں چہ وہ ہجرت کر کے غزہ چلے آئے جو تب مصر کے زیرحکومت تھا۔جنگ 1967ء میں اسرائیل نے غزہ پر بھی قبضہ کر لیا۔
اسرائیلی حکومت نے اہل غزہ کی نقل وحرکت پہ ان گنت پابندیاں لگا دیں اور ان سے محکوموں جیسا توہین آمیز سلوک کیا۔ریاستی ظلم کے خلاف آخر 1987ء میں فلسطینی اٹھ کھڑے ہوئے اور یوں پہلی انتفاضہ نے جنم لیا۔احتجاج مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس تک بھی پھیل گیا۔فلسطینی مسلمان تینوں علاقوں میں آزاد ریاست فلسطین کا قیام چاہتے ہیں۔اہل غزہ کی جدوجہد رنگ لائی اور 2005ء میں اسرائیل نے علاقے کی باگ ڈور مقامی افراد کے سپرد کر دی۔
2006ء میں حماس اور اس کی ہمنوا جہادی تنظیموں نے غزہ کا الیکشن جیت لیا۔یہ فتح مگر اسرائیل،مصر اور ان کے مغربی حواریوں سے ہضم نہ ہو سکی، چناں چہ اسرائیل و مصر نے اہل غزہ پہ مختلف معاشی و سیاسی پابندیاں لگا دیں، یوں مسلمانان ِغزہ کو یہ مجموعی سزا دی گئی کہ انھوں نے حکومت اسلامی مزاج رہنماؤں کے سپرد کیوں کر دی؟ اسلام پسند لیڈروں کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے یہ مغربی استعمار اور مسلم ملکوں میں اس کی پٹھو حکومتوں کا پرانا حربہ ہے۔
پابندیوں کے باعث غزہ سے برامدات بھجوانا ناممکن ہو گیا۔اسی لیے وہاں بہت سے کارخانے اور کمپنیاں بند ہو گئیں اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔آج ساٹھ فیصد سے زائد اہل غزہ بیروزگار ہیں، ان میں سے اکثر جزوقتی کام کر کے گذربسر کرتے ہیں، باروزگار ملبوسات اور صابن بنانے والے چھوٹے کارخانوں یا زراعت سے وابستہ سرگرمیوں میں کام کرتے ہیں۔علاقے میں غربت کا دور دورہ ہے۔اکثر خاندان نجی تنظیموں کی امداد سے اپنی اور بچوں کی پیٹ پوجا کرتے ہیں۔غرض اسرائیل ومصر کی پابندیوں نے غزہ کو دنیا کے سب سے بڑے قید خانے‘‘میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔
ضمیر ودین کا سودا نہیں: اسرائیل ہی غزہ کو پینے کا پانی اور بجلی فراہم کرتا ہے۔لہذا اسرائیلی حکومت عموماً گندا پانی غزہ بھجواتی ہے۔بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی معمول بن چکا۔سیوریج کا نظام بھی فنڈز کی کمی سے تباہ حال ہے۔رقم کی کمی کے باعث حماس حکومت عوام دوست ترقیاتی منصوبے مکمل نہیں کرا پاتی۔
مسلمانان عالم کے لیے ایمان افروز اور اہل مغرب کی نظر میں تعجب خیز بات یہ ہے کہ غربت،بیروزگاری ،بھوک،پیاس اور لاچارگی و بے بسی کے باوجود اہل غزہ کی غیرت وحمیت مردہ نہیں ہوئی۔وہ کسی بھی صورت اسرائیل کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا چاہتے اور نہ ہی اس کی بالادستی قبول کرنے کو تیار ہیں۔وہ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کو غاصب وظالم سمجھتے اور ہر حال میں اس کا مقابلہ کرنے کے خواہشمند ہیں۔مادی دنیا میں بستے لوگ اہل غزہ کو پاگل اور احمق کہیں گے مگر ایمان والے ایسے ہی ہوتے ہیں…وہ چند ٹکوں کی خاطر اپنے ضمیر ودین کا سودا نہیں کرتے!
فلسطین کی طرح پچھلی ربع صدی سے بھارت کی ہندو اسٹیبلشمنٹ نے جموں وکشمیر پہ غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔وہاں چپے چپے پر بھارتی سیکورٹی فورسسز تعینات ہیں۔بھارتی حکومت نے کشمیریوں کے درمیان اپنے ایجنٹ چھوڑ رکھے ہیں جو انھیں ’’باغی‘‘کشمیری نوجوانوں کی اطلاعات پہنچاتے ہیں۔اسی لیے مجاہدین کشمیر بڑا تو کیا چھوٹا اسلحہ بھی تیار نہیں کر پاتے۔مگر غزہ میں خوش قسمتی سے اسرائیلی فوج نکل چکی،اس باعث وہاں مجاہدین کو اندرون خانہ ایسا اسلحہ تیار کرنے کا موقع مل گیا جو مملکت اسرائیل کو کچھ نہ کچھ نقصان ضرور پہنچا سکے۔
مقابلے کا بنیادی ہتھیار: یہودی ریاست سے نبرد آزما نت نئے راکٹ مجاہدین غزہ کے لیے بنیادی ہتھیار بن چکے، اہل غزہ اور اسرائیل کی حالیہ لڑائی میں انہی راکٹوں کی دھواں دار بارش نے اسرائیلی شہروں میں خوف وہراس کا ماحول پیدا کر ڈالا۔بہت سے اسرائیلی پہلی بار جنگ کی سختی و ٹینشن سے آشنا ہوئے تو ان بزدلوں کی ڈر سے چیخیں نکل گئیں۔اسی صورت حال نے شدید جانی و مالی نقصان کے باوجود مجاہدین غزہ میں فتح اور نفسیاتی برتری کا احساس جنم دے ڈالا۔اور جب جنگ بندی ہوئی تو اہل غزہ نے خوشی ومسّرت سے اپنی جیت کا جشن منایا۔ان کے چمکتے دمکتے چہرے دیکھ کر دنیا والے حیران رہ گئے اور سوچنے لگے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو زبردست مصبیتوں میں گھرے ہونے کے باوجود مسکرانے کا حوصلہ رکھتے ہیں!
غزہ میں حماس،اسلامی جہاد،پاپولر ریزیسٹینس کمیٹی،انصار اسلام اور پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین نمایاں جہادی تنظیمیں ہیں۔حماس کے ساتھ تیس سے پچاس ہزار کے مابین مجاہدین منسلک ہیں۔اسلامی جہاد سات آٹھ ہزار مجاہدین پر مشتمل ہے۔دیگر جہادی تنظیموں کے ارکان کی تعداد چند سو سے چند ہزار کے مابین ہے۔ان تمام تنظیموں کے ماہرین نے ابتداً عام دستیاب اشیا سے بم اور دیسی پستول تیار کیے۔بعد ازاں شام اور ایران کے ماہرین نے انھیں دیسی راکٹ بنانے کے طریقے بتائے۔یوں مجاہدین راکٹ بنانے پر بھی قادر ہو گئے۔
2001ء میں انھوں نے پہلا راکٹ تیار کیا تھا۔تب سے ان کی دیسی ساختہ راکٹ ٹیکنالوجی مسلسل ترقی کر رہی ہے۔ اسرائیل کی زبردست پابندیاں اور ناکہ بندی بھی مجاہدین کو نت نئے راکٹ بنانے سے نہیں روک سکی۔بے سروسامانی کے باوجود وہ سر توڑ کوششوں سے راکٹ سازی انجام دے ڈالتے ہیں۔ذیل میں ان راکٹوں کا تذکرہ پیش ہے جو اہل غزہ اپنی کوششوں اور دوستوں کے تعاون سے معرض ِوجود میں لا چکے۔
قسّام: یہ غزہ میں بننے والا پہلا راکٹ ہے۔دوسری انتفاضہ کے دوران ستمبر 2001ء میں تیار ہوا۔اس کا نام حماس کے عسکری دستے،عز الدین قسّام بریگیڈ کے نام پر رکھا گیا۔اب تک اس راکٹ کے چار نمونے یا ورژن سامنے آ چکے۔چاروں راکٹ اسٹیل کی نالی میں دھمافکہ خیز مواد بھر کر بنائے جاتے ہیں۔ان میں گائیڈینس سسٹم نصب نہیں ہوتا۔لہذا اندازے سے نشانہ باندھ کر راکٹ چھوڑا جاتا ہے۔
قسّام اول تقریباً تین کلو وزنی ہے۔ ڈیڑھ کلومیٹر کی مار رکھتا ہے۔اس میں ڈیڑھ کلو وزنی بارودی مواد بھرنا ممکن ہے۔قسّام چہارم پچاس کلو وزنی ہے۔سولہ کلومیٹر دور تک جاتا ہے۔اس میں دس کلو وزنی بم رکھنا ممکن ہے۔ یہ سب سے موثر قسّام راکٹ ہے۔چاروں راکٹ چینی اور پوٹاشیم نائٹریٹ کے ملغوبے سے بنے ایندھن سے چلتے ہیں۔
القدس 101: یہ اسلامی جہاد کے ماہرین کا ایجاد کردہ راکٹ بھی اسٹیل کے پائپوں میں بارودی مواد بھر کر وجود میں آتا ہے۔اس کے دو اور ورژن، القدس 102اور القدس 103سامنے آ چکے۔القدس 103اٹھارہ سے تیس کلومیٹر کے مابین مار رکھتا ہے۔ان راکٹوں کے لانچر قسّام والے سے زیادہ جدید ہیں۔اسی باعث ان کے ذریعے بیک وقت دس القدس راکٹ چل سکتے ہیں۔ان میں بھی کوئی گائیڈینس نظام نہیں لگا ہوتا۔
گرادBM-21-: یہ سویت یونین کا بنایا راکٹ ہے جسے شامی فوج بھی استعمال کرتی رہی۔یہ راکٹ پچپن کلومیٹر تک مار رکھتا ہے۔شام سے اسے حماس کی طرف اسمگل کیا گیا۔
WS-1-E: یہ چین کا تیار کردہ راکٹ ہے۔ویشی(Weishi) بھی کہلاتا ہے۔اس کی حد مار بھی پچپن کلومیٹر ہے۔ایران اور شام چینی راکٹ سے ملتے جلتے راکٹ تیار کر چکے۔انھوں نے یہ راکٹ حماس کو بھی فراہم کیا۔
سجیل: یہ ایران کا بنایا راکٹ ہے۔وہاں سے حماس کو اسمگل ہوا۔اس کی حد مارپچپن کلومیٹر ہے، ماہرین عسکریات کے مطابق حماس اور غزہ کی دیگر جہادی تنظیموں کے پاس بیشتر راکٹ قسّام،القدس،گراداور سجیل قسم کے ہیں۔مذید براں وہ چند سو درج ذیل طویل فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ بھی رکھتی ہیں۔
مقادمہ۔75: ماہرین کی رو سے یہ ایران ساختہ راکٹ،فجر پنجم کی نقل ہے۔ایران نے فجر پنجم بنانے کی دستاویزات 2012ء میں کامیابی سے غزہ منتقل کر دی تھیں۔ان دستاویز کی روشنی میں مجاہدین غزہ نے اپنا فجر پنجم راکٹ تیار کیا جسے مقادمہ ۔75کا نام ملا، یہ راکٹ پچھترکلومیٹر دور تک جا سکتا ہے۔گویا اسرائیلی دارالحکومت،تل ابیب،اس کے ہوائی اڈے، بن گوریان ائرپورٹ اور مغربی یروشلم کو نشانہ بنا لیتا ہے۔مجاہدین نے حالیہ لڑائی میں یہی راکٹ تل ابیب کی سمت داغے تھے۔ان کی وجہ سے بن گوریان ائرپورٹ پہ پروازیں معطل ہو گئیں۔اس پر دس کلو وزنی دھماکہ خیز مواد لد سکتا ہے، راکٹ کا نام حماس کے رہنما،ابراہیم مقادمہ کے نام پر رکھا گیا جنھیں مارچ 2003ء میں اسرائیلی میزائلوں نے شہید کر دیا تھا۔
الجبری۔80: یہ راکٹ بھی حماس کے ماہرین نے گھریلو عسکری انڈسٹری میں ایجاد کیا۔یہ اسّی کلومیٹر کی حد مار رکھتا ہے۔جسامت اور صورت شکل میں مقادمہ75سے ملتا جلتا ہے۔اس کا نام حماس کے شہید رہنما،احمد الجبری کے نام پہ رکھا گیا۔یہ راکٹ بھی تل ابیب کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
عطار۔120: یہ حماس کے ماہرین عسکریات کا تیار کردہ نیا راکٹ ہے جو اسرائیل سے حالیہ مجادلے میں متعارف کرایا گیا۔یہ راکٹ ایک سو بیس کلومیٹر کی حد مار رکھتا ہے۔حماس کے مطابق اس پر بھاری دہماکہ خیز مواد رکھا جاتا ہے۔راکٹ کا نام حماس کے شہید رہنما،رائد العطار کے نام پہ رکھا گیا۔
رینتیسی۔160: یہ آر۔160بھی کہلاتا ہے۔حماس کے ماہرین کا بنایا یہ دیسی راکٹ سب سے زیادہ حد مار رکھتا ہے یعنی ایک سو ساٹھ کلومیٹر!یہ اسرائیل اور مجاہدین غزہ کی جنگ 2014ء میں سامنے آیا۔تب یہ راکٹ اسرائیلی شہر،حیفہ کی جانب چھوڑے گئے تھے۔اس کا نام حماس کے شہید رہنما،عبدالعزیز رینتیسی کے نام پہ رکھا گیا۔
خیبر اول: یہ شام کا تیار کردہ راکٹ ہے۔ایم۔302بھی کہلاتا ہے۔یہ راکٹ دو سو کلومیٹر کی حد مار رکھتا ہے۔ماہرین کا دعوی ہے کہ حماس کے پاس یہ راکٹ موجود ہیں جو شام سے اس کے ذخیرے میں منتقل کیے گئے۔غزہ سے داغے گئے یہ راکٹ پورے اسرائیل کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
راکٹوں کا گودام: مجاہدین غزہ نے اپنے علاقے میں جگہ جگہ سرنگیں کھود رکھی ہیں ۔سبھی راکٹ اور دیگر اسلحہ انھی سرنگوں میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ان سرنگوں کے مقامات سے صرف مجاہدین واقف ہوتے ہیں۔جب بھی لڑائی چھڑے،تو اسرائیلی سیکورٹی فورسسز کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ ان سرنگوں کو نشانہ بنایا جائے۔اس ضمن میں وہ زیرزمین دیکھنے والی جدید ٹکنالوجی سے بھی مدد لیتی ہیں۔تاہم ساری سرنگیں برباد نہیں کر پاتیں۔
اسرائیلی میزائیل شکن نظام، 2004ء میں اسرائیل اور لبنانی جہادی تنظیم،حزب اللہ کے مابین زبردست جنگ ہوئی تھی۔اس میں حزب اللہ نے اسرائیلی شہروں پر ان گنت راکٹ داغے تھے جنھوں نے بہت سے اسرائیلی مار ڈالے۔تبھی اسرائیلی حکومت سوچنے لگی کہ راکٹ و میزائیل روکنے والا نظام بنایا جائے۔
اسرائیل نے پھر اپنے سرپرست،امریکا کی مالی و تکنیکی امداد سے میزائیل شکن سسٹم،آئرن ڈوم ایجاد کر لیا۔یہ نظام 2011 ء سے اسرائیلی بستیوں کا دفاع کر رہا ہے۔اس سسٹم کے میزائلیوں کا سارا خرچہ آج بھی امریکا برداشت کرتا ہے۔گویا اسرائیل کے دفاع کی ذمے داری امریکی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے سر لے رکھی ہے۔اس صورت میں یہ سپر پاور اسرائیل کے مفادات کیوں خطرے میں ڈالے گی؟
آئرن ڈوم کی ایک بیٹری تین چار لانچر رکھتی ہے۔ہر لانچر میں راکٹ ،گولے وغیرہ روکنے والے بیس میزائیل موجود ہوتے ہیں۔اسرائیلی حکومت نے تمام شہروں اور قصبات میں یہ بیٹریاں تعنیات کر رکھی ہیں۔ان کے میزائیل چار تا پچھتر کلومیٹر دور سے آنے والے راکٹ،گولے ،میزائیل،ڈرون اور ہوائی جہاز تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ماہرین عسکریات کی رو سے یہ چھوٹے پیمانے پر راکٹ و میزائیل تباہ کرنے والا دنیا کا جدید ترین میزائیل شکن نظام ہے۔
نظام بے اثر ہوا: مجاہدین غزہ نے مگر حالیہ لڑائی کے دوران اس جدید ترین سسٹم کو اچھا خاصا بے اثر بنا ڈالا اور اپنی حکمت عملی اس کا توڑ دریافت کر لیا۔ہوا یہ کہ گیارہ مئی سے انھوں نے اسرائیلی بستیوں پر راکٹوں کی بارش کر دی۔یکے بعد دیگرے اسرائیل کی سمت راکٹ پھینکے گئے۔خود اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ روزانہ تقریباً ’’چار سو راکٹ‘‘غزہ سے چھوڑے جاتے رہے۔گویا مجاہدین نے یہ پالیسی اپنا لی کہ پے در پے راکٹ چھوڑ کر آئرن ڈوم کو مفلوج کر دیا جائے اور وہ سبھی کو نہ روک پائے۔ان کی حکمت عملی کامیاب رہی اور بہت سے فلسطینی راکٹ اسرائیل کی تنصیبات،گاڑیوں،گھروں وغیرہ پہ جا گرے۔یہ حزب اللہ سے جنگ 2004ء کے بعد پہلا موقع تھا کہ ریاست اسرائیل راکٹوں کا بارش کا شکار ہوئی۔اور اس بار راکٹ لبنان نہیں غزہ سے آئے تھے …وہ نگر جس کی اسرائیل نے زبردست ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
دشمن کی گواہی: اسرائیل کے مشہور اخبار،دی ہرٹز(Haaretz)کی ایک رپورٹ(11 days, 4,340 rockets and 261 dead: The Israel-Gaza fighting in numbers) کے مطابق حالیہ دس روزہ لڑائی میں مجاہدین غزہ نے اسرائیل پہ ’’ 4,340‘‘راکٹ داغے۔اسرائیلی فوج کا دعوی ہے کہ ان میں سے ’’نوے‘‘فیصد راکٹ آئرن ڈوم نے تباہ کر دئیے۔گویا چار سو سے زائد راکٹ اسرائیلی ٹارگٹوں کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہے جو اچھی خاصی تعداد ہے۔انھوں نے اسرائیل میں تیرہ افراد بھی مار ڈالے۔
حیرت انگیز بات یہ کہ اسرائیلی اخبار کی درج بالا رپورٹ یہ خبر بھی دیتی ہے لڑائی کے بعد اسرائیل ٹیکس اتھارٹی میں جائیداد کو نقصان پہنچنے پر اسرائیلی شہریوں کی جانب سے ہرجانے کے ’’ 3,424‘‘دعوی رجسٹر کرائے گئے۔جبکہ گاڑیوں کو نقصان پہنچنے کے ’’1,724‘‘دعوی بھی رجسٹر ہوئے۔اسرائیلی شہریوں کی جانب سے ہزارہا دعوی رجسٹر کرانے سے انکشاف ہوتا ہے کہ آئرن ڈوم اس بار مجاہدین غزہ کے ہزارہا راکٹ اور گولے نہیں روک پایا۔گویا اسرائیلی فوج آئرن ڈوم کی بدترین کارکردگی چھپا رہی ہے تاکہ اسرائیلی عوام میں مایوسی اور خوف وہراس نہ پھیلنے پائے۔
یہی وجہ ہے ،دوران لڑائی اسرائیل میں بار بار سائرن بجنے سے شہریوں کی روزمرہ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔ہر بار سائرن بجنے پر لوگ اپنے کام چھوڑ چھاڑ پناہ گاہوں کی سمت دوڑ پڑتے۔کاروبار اور نقل و حمل معطل ہو جاتی۔غرض مجاہدین غزہ کے راکٹوں کی وجہ سے اسرائیل کے بڑے حصّے میں معاشی سرگرمیاں تقریباً ختم ہو گئیں۔اس سے اسرائیلی معشیت کو خاصا نقصان پہنچا۔اسے کروڑوں ڈالر کا ٹیکا لگ گیا۔
اربوں روپے کا نقصان: ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ آئرن ڈوم کے ایک میزائیل کی قیمت پچاس ہزار سے ایک لاکھ ڈالر کے مابین ہے۔جبکہ مجاہدین غزہ کے بنائے دیسی راکٹوں کی تیاری پہ بہت کم لاگت آتی ہے…چند سو سے لے کر چند ہزار ڈالر!گویا فلسطینی راکٹ و گولے پھوڑنے کی خاطر اسرائیل کو پاکستانی کرنسی کے حساب سے اربوں روپے کے میزائیل برباد کرنا پڑے۔اسی زبردست خرچے کو دیکھتے ہوئے امریکا میں یہ آوازیں بلند ہو گئیں کہ آخر امریکی ٹیکس دہندگان کی خون پسینے کی کمائی دفاع ِاسرائیل پر کیوں لگ رہی ہے ؟آخر مملکت ِاسرائیل میں ایسے کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ امریکی حکمران طبقہ ہر قیمت پہ اس کی مدد کرتا ہے؟
ٹیکنالوجی بہتر سے بہتر : اوزی رابن(Uzi Rubin)اسرائیل کا نامور ماہر ِعسکریات ہے۔وہ اسرائیل کے میزائیل ڈیفنس آرگنائزیشن کا سربراہ رہ چکا۔اس نے موجودہ صورت حال پہ تبصرہ کچھ یوں کیا:’’غزہ کے جنگجوؤں کو یہ سچائی معلوم ہو چکی کہ راکٹ اور میزائیل معمولی ہتھیار نہیں…یہ کسی بھی علاقے میں عسکری وسول تنصیبات تباہ کر کے دشمن کی سائیکی مفلوج کر سکتے ہیں۔اسی لیے غزہ کے جنگجو اب راکٹ و میزائیل کی اپنی ٹکنالوجی بہتر سے بہتر بنا رہے ہیں۔
’’حالیہ دس روزہ لڑائی میں غزہ سے بعض نئے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ بھی چھوڑے گئے جنھیں آئرن ڈوم نہیں روک پایا۔میں سمجھتا ہوں،غزہ کے جنگجوؤں کی اب سعی ہے کہ وہ اپنے راکٹوں میں کسی نہ کسی قسم کا گائیڈینس سسٹم لگا دیں۔اس طرح ان کے راکٹ اسرائیلی عسکری وسول تنصیبات کے لیے زیادہ خطرناک بن جائیں گے۔تب ممکن ہو جائے گا کہ فلسطینی راکٹ حسب منشا تیل، پانی یا گیس کی پائپ لائیں تباہ کر سکیں۔پٹڑیوں اور سڑکوں کو نشانہ بنائیں۔یوں ان گائیڈڈ راکٹوں سے جنگجو اسرائیل میں روزمرہ زندگی بالکل مفلوج کر کے رکھ دیں گے۔
’’غزہ کے جنگجوؤں نے دیگر ممالک کی افواج کو بھی یہ اہم پیغام دیا ہے کہ میزائیل اور راکٹوں کو عام اسلحہ مت سمجھا جائے۔بلکہ یہ ہتھیار جنگ جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔وجہ یہی ہے کہ میزائیل چھوڑنے کے لیے لمبا چوڑا انتظام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔انھیں کہیں سے بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔مذید براں ان کی وجہ سے انسانی جانیں بھی خطرے میں نہیں پڑتیں۔لہذا مستقبل کی جنگوں میں میزائیل ،ڈرون اور دیگر مشینی اسلحہ بہت اہمیت اختیار کر لیں گے۔کیونکہ وہ نہ صرف دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائیں گے،بلکہ ان کے ذریعے اپنا جانی نقصان کم سے کم ہو گا۔‘‘
خطرے کی گھنٹی: مجاہدین غزہ نے حالیہ لڑائی میں دھماکہ خیز ڈرون بھی اسرائیل کی جانب چھوڑے۔مذید براں بارود سے لدے بحری ڈرون کے ذریعے اسرائیلی آبدوز تباہ کرنے کی بھی کوشش ہوئی۔غزہ کے ماہرین اپنی خفیہ اسلحہ ساز فیکٹریوں میں راکٹ و ڈرون ہی نہیں ٹینک شکن میزائیل اور کندھے پہ رکھ کر طیاروں کو نشانہ بنانے والے میزائیل تیار کرنے کی جستجو بھی کر رہے ہیں۔گویا بے سروسامانی کے عالم میں بھی مجاہدین نے کہیں زیادہ طاقتور اسرائیل افواج کو منہ توڑ جواب دینے کا تہیہ کر رکھا ہے۔
امریکا،اسرائیل اور یورپی ممالک کے ماہرین عسکریات اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کو خبردار کر رہے ہیں کہ مجاہدین غزہ کی راکٹ ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ اب وہ ایسے راکٹ بنا چکے جو باآسانی تل ابیب پہنچ جاتے ہیں۔یہ اسرائیل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔گویا مستبقل میں اسرائیلی فوج نے غزہ پہ زمینی حملہ کیا تو مجاہدین ترنوالہ ثابت نہیں ہوں گے۔جیسے حزب اللہ کے جنگجوؤں نے گوریلا جنگ لڑ کر اسرائیلی فوجیوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا تھا،اسی طرح مجاہدین غزہ بھی چھاپہ مار کارروائیوں سے اسرائیلی فوج کو حیران کن جواب دیں گے۔
اسرائیل اور مجاہدین غزہ کے مابین دس روزہ حالیہ لڑائی میں فلسطینی شہریوں کی کثیر تعداد نے جام شہادت نوش کیا جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔یہ انتہائی صدمہ انگیز بات ہے۔مجاہدین کے پاس تو گائیڈڈ ہتھیار موجود نہیں،مگر اسرائیلی فوج یہ جدید ترین ٹکنالوجی رکھتی ہے۔پھر بھی اسرائیلی افواج دانستہ فلسطینی شہریوں کو نشانہ بناتی ہیں۔مدعا یہ ہے کہ اہل غزہ کو خوفزدہ کر کے انھیں جہادی تنظیموں کا مخالف بنا دیا جائے۔مگر اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کی یہ پالیسی تاحال کامیاب نہیں ہو سکی۔
اتحاد …وقت کی ضرورت: حقیقت یہ ہے کہ بے یار ومددگار مجاہدین غزہ نے اپنی بے مثال دلیری و جرات کی بدولت دنیا کے تمام مسلمانوں کو متحد کر دیا۔پچھلے چند عشروں سے امت مسلمہ کے دشمن مختلف اسلامی ملکوں میں فرقہ وارنہ،مذہبی اور معاشرتی اختلافات پیدا کر کے مسلمانوں کو تقسیم کرنے میں کامیاب رہے۔مگر مجاہدین غزہ کی اسرائیل سے حالیہ لڑائی نے مسلمانان عالم پہ یہ سچائی واضح کر دی کہ انھیں اپنے دشمنوں کے خلاف متحد ہو جانا چاہیے۔
امت مسلمہ کے سب سے بڑے دشمن اسرائیل اور بھارت ہیں۔یہ دونوں مغربی طاقتوں کی پشت پناہی سے فلسطینی اور کشمیری مسلمانوں پہ ظلم وستم کر رہے ہیں۔مسلمانان عالم کا اتحاد ویک جہتی ہی ان دونوں مسلم دشمن طاقتوں کو مزید مظالم ڈھانے سے روک سکتی ہے۔