ڈونلڈ ٹرمپ کی دہشت گردانہ پالسیوں پر گامزن جوبائیڈن

ڈونلڈ ٹرمپ کی دہشت گردانہ پالسیوں پر گامزن جوبائیڈن

🗓️

(سچ خبریں) جوبائیڈن نے بے غیرتی اور دروغ گوئی کی ایک نئی مثال قائم کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ 2019 میں طالبان سے کیے گئے معاہدے پر نظر ثانی کرے گا۔

اپنے تیس سالہ سیاسی دور میں بائیڈن ہمیشہ سامراجی پالیسی کا پرجوش حامی رہا ہے، بحیثیت نائب صدر ایران میں امریکی تخریب کاری اور دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی اور لاطینی امریکا کی لوٹ مار کا پرجوش حامی رہا۔

اپنی 2020 کی صدارتی مہم کے دوران کئی بار بائیڈن نے افغانستان اور عراق سے انخلا کا دعویٰ کیا تھا اب وہ اس سے مکر گیا ہے۔

یہ واضح کرتا ہے کہ امریکی وعدوں اور معاہدوں پر قطعی اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ امریکی خارجہ پالیسی کی ناقابل تبدیل خصوصیت دروغ گوئی اور وعدہ خلافی دو سو سال سے رہی ہے، اس وعدہ خلافی کا مظاہرہ ہم 1965 اور 1971 میں دیکھ چکے ہیں۔

امریکی غاصبین افغانستان میں بزدل چوہوں کی طرح خود تو اپنے بلوں میں دبکے بیٹھے رہتے ہیں اور پٹھو افغان فوجیوں کو مرواتے رہتے ہیں، جب تک پٹھو فوجی اسلام سے غداری پر آمادہ رہیں گے یہ جنگ جاری رہے گی۔
طالبان نے اپنی بائیس سالہ جدوجہد کے دور میں ثابت کر دیا ہے کہ وہ ناقابل شکست ہیں اور ان کی ریاستی انتظامی اور معاشی بنیادیں مستحکم ہیں۔

انہیں امریکی باج گزار غدار حکومت سے صلح کرنے یا کسی جمہوری معاہدے کو قبول کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک سرکاری فوج اور عوام کرزئی، عبداللہ ٹولے کے خلاف بغاوت نہ کر دیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ طالبان سرکاری فوج اور سرکاری مقبوضہ علاقوں میں (Vietcong) کی طرح بڑے پیمانہ پر داخل ہوتے جائیں۔ اپنی عدیم المثال دلیری اور استقامت کے سبب طالبان کی فتح یقینی ہے۔

جوبائیڈن کی خارجہ پالیسی: عراق اور افغانستان کے خلاف جارحیت جاری رکھنے کی حکمت عملی کا تعین امریکی خارجہ پالیسی کے وسیع تر تناظر میں ہو گا۔

2019 میں عراقی حکومت امریکا سے مطالبہ کر چکی ہے کہ اپنے اڈے بند کر کے فوجی واپس بلا لے، اس مطالبے کو ٹرمپ سرکار نے حقارت سے رد کر دیا تھا، اگر عراق میں امریکی جانی نقصان بڑھا تو اس کا امکان موجود ہے کہ امریکی فوجی مداخلت میں کمی ہوگی، لیکن عراق اور خلیج فارس بالخصوص یمن میں امریکی مزاحمت کے کم ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہاں پر امریکی مداخلت ایران پر دباؤ بڑھانے کے لیے ضروری ہے اور سعودی عرب اور عرب امارات کی باج گزار حکومتوں کی سلامتی کا انحصار امریکی پشت پناہی پر ہے۔

اس لیے اس خطے میں اسرائیل کی حمایت بھی بڑھتی جائے گی۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی جارحیت کا سبب معدنی ذرائع پر قبضہ جاری رکھنا اور روسی پھیلتے ہوئے اثر کی تحدید ہے۔ روس شام پر قابض ہے۔ قفقاز کے علاقہ میں اور مشرقی بحر متوسط کے علاقہ (eastern mediterranean) میں اس کا اثر بڑھ رہا ہے۔

روس کی علاقائی ناکہ بندی کو مضبوط کرنے کے لیے ناٹو کو تقویت پہنچانا بھی ضروری ہے۔ ٹرمپ نے ناٹو کو کمزور کرنے کی باتیں کی تھیں (جن پر عمل درآمد بالکل واجبی تھا)۔ بائیڈن ناٹو پر کیے جانے والے امریکی اخراجات بڑھا کر اپنے یورپی اتحادیوں کو خوش کر دے گا اور کوشش کرے گاکہ مغربی یورپ (بالخصوص جرمنی) سے دوری کم ہو۔

بائیڈن انتظامیہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹ کانگریس کے نمائندے اس بات پر متفق ہیں کہ امریکی سامراج کا اصل مقابلہ عالمی سطح پر چینی سامراج سے ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے جو تجارتی معاہدہ 2020-2019 میں کہا تھا وہ عملاً دم توڑ چکا ہے۔ بائیڈن وہ تمام محصولات جاری رکھے گا جو ٹرمپ نے چینی برآمدات پر 2008 سے لے کر 2020 تک نافذ کیے تھے۔

ڈونلڈٹرمپ نے اس بات کی کوشش کی تھی کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں چین سے سرمایہ کاری دوسرے ممالک میں منتقل کرنے پر آمادہ کی جائیں، بائیڈن بھی یہ پالیسی جاری رکھے گا، اسی طرح چین کی بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجیکل صلاحیت کو مجروح کرنے کی تمام کوششیں جاری رہیں گی۔

جوبائیڈن کو چین سے عسکری پنجہ آزمائی سے کوئی باز نہیں رکھ سکتا لہٰذا وہ بھارت کے ساتھ انڈو پیسفک الائنس کو مضبوط کرے گا اور بالخصوص جنوبی بحرالکاہل میں امریکی جارحیت جاری رہے گی اور کوشش کرے گا کہ انڈونیشیا اور فلپائن اس کے جنگی بیڑوں سے تعاون کریں۔ اگر ہمالیہ کے علاقہ میں چین اور بھارت میں پنجہ آزمائی جاری رہی تو امریکا بھارتی سپاہیوں کو وہاں مروانے کی بھرپور تائید کرے گا، وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی دہشت گردی کی کھل کر حمایت جاری رکھے گا۔

جوبائیڈن ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلہ میں کہیں زیادہ عیار ومکار ہے، وہ اپنی ہر سامراجی مداخلت کو حقوق انسانی کے نظریاتی جواز پر اصرار کرے گا، اس کو حقوق انسانی کی پامالی کل آٹھ کروڑ ریڈ انڈین قتل کرتے ہوئے نظر نہیں آئی تھی (درحقیقت یہ قتل عام انسانی حقوق پر عمل درآمد کرنے کا تقاضا تھی) آج اس کو ہیومن رائٹس کی پامالی نہ فلسطین میں نظر آتی ہے نہ مقبوضہ کشمیر میں نہ پیرو اور بولیویا میں نہ کولمبیا میں نہ مالی میں۔ صرف چین میں اور روس میں اور پاکستانی مرزائیوں کے خلاف ہیومن رائٹس کی پامالی پر بائیڈن دہائی دیتا رہے گا اور اس دہائی کی آڑ میں امریکی سامراجی دہشت گردی جاری رہے گی۔

امریکا کی خارجہ پالیسی اور اس کا داخلی بحران: اپنے طویل سیاسی سفر کے دوران بائیڈن خارجہ امور میں گہری دلچسپی لیتا رہا ہے لیکن فی الحال اس کی توجہ (کم از کم 2021 میں) داخلی بحرانوں کو رفع کرنے پر مرکوز ہو گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ٹرمپ کے مجوزہ افغانستان اور عراق سے قومی انخلا کا منصوبہ نافذ کیا جاتا رہے گا اور داخلی بحرانوں پر کسی نہ کسی حد تک قابو پانے کے بعد ان معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے) 2021 کے ابتدا میں امریکا تین بحرانوں سے دوچار ہے جن کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔

وبائی بحران جو ایک سال سے جاری ہے اور جس کے نتیجے میں توقع ہے کہ مارچ اپریل میں کئی لاکھ امریکی مر چکے ہوں گے اور کئی کروڑ کووڈ 19 کے مرض میں مبتلا ہو چکے ہوں گے۔ وائرس نئے نئے جراثیم کی شکل میں پیدا ہو رہا ہے اور یہ واضح نہیں کہ جو ویکسین ایجاد ہوئی ہیں وہ وائرس کی تمام اقسام پر کارگر ثابت ہو سکتی ہیں اور ویکسین کے باوجود نئے نئے جراثیم پیدا ہوتے رہیں گے یا نہیں، لیکن سائنس دانوں کو توقع ہے کہ موسم گرما میں وبا کا پھیلاؤ کم ہو جائے گا۔

کیا یہ وبا آئندہ سردیوں تک دوبارہ پھر لوٹ آئے گی؟ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میڈیسن جو ایک جاہلی علمیت ہے خود نئے نئے جراثیم پیدا کرتی رہی ہے۔ بائیڈن ویکسی نیشن مہم کی بدانتظامیوں کو رفع کرنے کی کوشش کرے گا اور اس کی انتظامیہ جو تجربہ کار مشیروں پر مشتمل ہے اس کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

اس کا اثر لازماً ہو گا اور اس سال اس بات کی توقع ہے کہ امریکا میں اس وبا پر بڑی حد تک قابو پالیا جائے گا (گو کہ اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ یہ یا اس قسم کی دوسری وبائیں بعد میں نہ پھوٹتی رہیں)۔

معاشی بحران: کووڈ 19 کے پھیلاؤ کی وجہ سے امریکی معیشت بحران کا شکار ہے۔ دس ملین کے قریب امریکی بے روزگار ہو گئے ہیں۔ مجموعی پیداوار (GDP)کی شرح 2020 میں منفی رہی ہے۔ کچھ صنعتوں (تعمیرات، ہوائی اور زمینی مواصلات، ریسٹورینٹس، تفریحی شعبہ) میں چھوٹے کاروبار تیزی سے دیوالیہ ہو رہے ہیں۔

غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ آج تقریباً ستر ملین امریکی غذائی قلت کا شکار ہیں۔ لیکن یہ بحران 2009 تا 2011 کے بحران سے بہت مختلف ہے۔ بینکاری کا نظام مستحکم ہے، سٹہ کی مارکیٹ کسی خلفشار کا شکار نہیں اور توقع یہی ہے کہ امریکی معیشت جلد ان مشکلات پر قابو پا لے گی۔ 2020 میں اوسط اجرتیں بہت کم گری ہیں اور نئے ملازمتی مواقع تیزی سے پیدا ہو رہے ہیں۔ صارفین کے اخراجات میں بہت معمولی کمی آئی ہے 2020 میں صرف 2.8 فی صد)۔ 2020 میں مجموعی امریکی آمدنی 2019 کے مقابلہ میں 4.3 فی صد زیادہ تھی۔

معیشت کو سنبھالنے کے لیے ٹرمپ نے 2020 میں تقریباً چار ٹریلین ڈالر کا جو حکومتی خرچہ منظور کیا تھا۔ جنوری 2001 میں بائیڈن نے 1.9 ٹریلین ڈالر کا حکومتی خرچہ مزید جاری کرنے کے لیے کانگریس سے منظوری طلب کی ہے۔ یہ بہت بڑی رقم ہے (مجموعی متوقع امریکی جی ڈی پی کا لگ بھگ پندرہ فی صد) اور سب کی سب سرکاری قرضہ لے کے پوری کی جا سکے گی۔
سیاسی بحران: 2020کے انتخابات نے امریکی عوام کے ایک بڑے حصہ پر جمہوری نظام کی حقیقت واضح کر دی یعنی یہ کہ عموماً جمہوری عمل کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ ہی برسراقتدار آتی ہے اور صرف استثنائی دورانیہ میں عوامی تحرک کارگر ثابت ہوتا ہے۔

نازی فلسفی شمٹ نے ایسے استثنائی مواقع کو ایکسپشنل اسٹیٹ کہا تھا۔ ٹرمپ نے امریکا میں ایک ایکسپشنل اسٹیٹ قائم کرنے کی کوشش کی تھی جس کو اسٹیبلشمنٹ نے جمہوری عمل کے ذریعہ ناکام بنا دیا۔

ڈولنڈٹرمپ کو 2020 میں چھیالیس فی صد ووٹ ملے اور آج تقریباً سینتیس فی صد امریکیوں کی رائے ہے کہ انتخابات جعلی تھے اور بائیڈن دھاندلی سے صدر بن بیٹھا ہے۔ یہ جمہوری نظام کی اصلیت پہچاننے کی طرف پہلا قدم ہے۔ جمہوری عمل کے ذریعہ عوام کو اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی ترجیحات کو قبول کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ یہی جمہوری آزادی کا مطلب ہے یعنی سرمایہ کی غلامی۔

اسٹیبلشمنٹ اس احساس کو ختم کرنے کی شدید جستجو کرے گی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ریپبلکن پارٹی کا مستقبل اسی احساس کے زندہ رکھنے سے وابستہ ہے اور اسی وجہ سے وہ بائیڈن کی پالیسیوں کو ناکام بنانے کے لیے سینیٹ اور گورننس کو حتی الامکان استعمال کرے گی۔
اسی بات کے لیے ماحول نہایت سازگار ہے کہ ٹرمپ یا اس کا جانشین عوام کے اسی احساس محرومی اور غم و غصہ کو ہوا دے کر 2022 اور 2024 کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کو دوبارہ شکست دے دیں۔ توقع یہی ہے کہ ان شاء اللہ امریکی معاشرتی افتراق بڑھتا چلا جائے گا اور امریکی سیاسی عمل کا جواز کمزور سے کمزور ہوتا چلا جائے گا۔ امریکا شاید اپنے وبائی اور معاشی بحرانوں پر تو وقتی طور پر قابو پا لے لیکن اس کا بڑھتا ہوا سیاسی اور سماجی بحران اس کو ان شاء اللہ تباہی کی طرف لے جاتا رہے گا۔ اس سیاسی اور سماجی بحران کا دورانہ لازماً طویل ہو گا۔
یہ صدیوںکا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں، اور اس پورے عرصہ میں امریکا ایک وحشی درندہ کی طرح غریب ملکوں میں اپنی دہشت گردی جاری رکھے گا۔

وہ روس یا چین سے براہ راست جنگ لڑنے کی تو ہمت نہیں رکھتا لیکن پراکسی جنگوں کی یہ تینوں سامراجی قوتیں ماہر ہیں۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ اس توقع پر یہ پراکسی جنگیں جاری رکھے گی کہ وحشی امریکی قوم ان کی اعانت کرے اور کم از کم وقتی طور پر متحد ہو جائے۔

عمران خان کی دہریہ حکومت آج کل اس بات کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ مشاورتی ادارتی ڈھانچہ بحال ہو جائے جو اوباما کے دور میں کارفرما تھا اور جو امریکا کو پاکستانی حکومت کے ہر شعبہ میں تخریب کاری کے وافرمواقع فراہم کرتا تھا، اگر ایسا ہوا تو امریکا سامراج کی استبدادی گرفت پاکستانی سیاست، معیشت اور معاشرت پر اور مضبوط ہو جائے گی۔

مشہور خبریں۔

غزہ جنگ کے 100 دن بعد اسرائیلی حکومت کو تین بحران کا سامنا

🗓️ 15 جنوری 2024سچ خبریں:عبرانی ذرائع ابلاغ نے صیہونی حکومت کے خلاف ایک محاذ جنگ

سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد لانے والوں پر توہین عدالت کیلئے درخواست دیں گے، فواد چوہدری

🗓️ 11 اپریل 2023لاہور:(سچ خبریں) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری

اسرائیلی فوج میں اہلکاروں کی شدید کمی؛ وجہ؟

🗓️ 29 جنوری 2025سچ خبریں: معاریو اخبار کے مطابق اسرائیلی فوج کا محکمہ انسانی وسائل

مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں  اہم فیصلہ متوقع

🗓️ 12 اپریل 2021اسلام آباد (سچ خبریں) وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت مشترکہ مفادات کونسل

امریکہ اسرائیل کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟

🗓️ 18 جولائی 2023سچ خبریں: سابق صیہونی وزیراعظم  نے امریکی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے

عراق میں ترک افواج کی تعداد سے لے کر آنکارا کے خلاف فیصلے کرنے تک

🗓️ 24 جولائی 2022سچ خبریں:   شفق نیوز ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے

سپریم کورٹ کے ججز ایسی کوئی چیز نہ کریں جس سے جمہوریت، آئین کی بالادستی کمزور ہو، عمران خان

🗓️ 9 مارچ 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران

نگران حکومت نے سکھر-حیدرآباد موٹر وے کا معاہدہ ختم کردیا

🗓️ 26 فروری 2024کراچی: (سچ خبریں) نگران حکومت نے اسپیشل انویسٹمنٹ اینڈ فیسیلیٹیشن کونسل (اے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے