?️
(سچ خبریں) اگر آپ کا شمار بھی دبئی، دوحہ یا شارجہ جیسے خلیجی ممالک میں رہنے والے یا کام کرنے والے پاکستانیوں میں ہوتا ہے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہاں نوکری تبدیل کرنا کتنا مشکل کام ہے، لیکن اب قطر میں کفالہ نظام کا خاتمہ کیا جارہا ہے جس کے بعد پاکستانی مزدوروں کی مشکلات میں کمی آئے گی جو خوشخبری کی بات ہے۔
امریکا میں تو نوکری کے لیے لیا گیا ایچ 1 بی ویزا کو ایک آجر سے دوسرے پر منتقل کروایا جاسکتا ہے لیکن کفالہ نظام میں یہ سہولت نہیں ہے، اگر کفالہ کو ایک سے دوسرے آجر پر منتقل کرنا ہو تو اس کے لیے پہلے آجر کی قانونی گواہی درکار ہوتی ہے جس میں وہ اپنے ملازم کو نوکری تبدیل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس وجہ سے اگر کوئی ملازم کام کے حالات اور تنخواہ سے ناخوش ہو اور اس کے پاس کسی بہتر نوکری کی آفر ہو تب بھی وہ اپنی نوکری تبدیل نہیں کرسکتا۔
سیدھی سی بات ہے کہ ایک آجر کبھی بھی کام کرنے کے حالات یا تنخواہوں کو بہتر کرنے پر توجہ نہیں دیتا کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ملازمین اس کی اجازت کے بغیر کوئی دوسری نوکری نہیں کرسکتے۔ اس وجہ سے اگر کوئی ملازم نوکری چھوڑنا بھی چاہے تو اسے پہلے اپنے ملک واپس جانا ہوتا ہے جو اکثر لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔
گزشتہ ستمبر، قطر وہ پہلا ملک بن گیا جس نے اس نظام کو تبدیل کرنے کے لیے قوانین کی منظوری دی۔ ان مجموعہ قوانین کا اب نفاذ ہونے جارہا ہے۔ ان قوانین کے مطابق قطر میں کام کرنے والے غیر ملکی مزدوروں کو اب نوکری تبدیل کرنے کے لیے اپنے آجر کی گواہی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس طرح خلیجی ممالک میں کام کرنے والے مزدوروں کو درپیش ایک بڑی مشکل دُور ہوجائے گی اور آجر اپنے ملازمین کی تنخواہوں اور کام کے حالات کو بھی بہتر بنانے پر توجہ دیں گے۔
نئے کفالہ قوانین کے علاوہ قطر نے متحدہ عرب امارات کی طرح 30 اگست 2020ء کے بعد سے ملازمت حاصل کرنے والے ہر ملازم کے لیے کم از کم ماہانہ تنخواہ 275 ڈالر مقرر کی ہے۔ اس کے علاوہ ایک آجر کو اپنے ملازمین کو رہائش فراہم کرنی ہوگی یا پھر رہائش کے بدلے ملازم کو ماہانہ 213 ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔
کفالہ قوانین کے برخلاف یہ قانون سازی کوئی بہت اعلیٰ مثال نہیں ہے۔ کم از کم تنخواہ کے لیے مقرر کی گئی رقم وہاں زندگی گزارنے کے لیے درکار اوسط رقم سے بہت کم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قطر کی ناکہ بندی کے بعد سے اشیائے خور و نوش اور دیگر چیزوں کی قیمت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور یوں یہ بنیادی اشیا مزدوروں کی پہنچ سے باہر ہوگئیں ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں تو کئی جگہوں پر کم از کم آمدن اس سے بھی کم ہے۔
قطر کو اس اقدام پر مبارکباد پیش کرنی چاہیے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے بار بار یہ توجہ دلائی گئی کہ کفالہ کا نظام غلامی کی ایک شکل ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ کسی مزدور کو ایک ہی آجر کے ساتھ باندھ دینے سے مزدور سخت شرائط پر عمل کرنے کا پابند ہوجاتا ہے۔ مزدور یا تو ان مشکل حالات (جن میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی بھی شامل ہے) کو برداشت کرتا ہے یا پھر اپنے ملک واپس چلے جانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ان مزدوروں نے بیرون ملک جانے کے لیے ہی اتنے قرضے لے رکھے ہوتے ہیں کہ ان کے لیے وطن واپس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بدسلوکی کا یہ رویہ ایک طویل عرصے سے سیکڑوں مزدوروں کے ساتھ جاری ہے۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ قطر میں ان قوانین کی وجہ اگلے سال قطر کی میزبانی میں ہونے والا فیفا ورلڈ کپ ہے۔ اگلے ہی روز ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فیفا کے صدر گیانی انفنٹینو کو ایک کھلا خط تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے کفالہ کے نظام اور آجر کی تبدیلی پر قطری شوریٰ قونصل کے سخت گیر مؤقف پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ قطر میں شاید ہی ملازمت کے قوانین عملی طور پر نافذ ہوئے ہوں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ فیفا کو چاہیے کہ قطر کو ورلڈ کپ کے لیے چننے سے پہلے یہاں مزدوروں کے ساتھ جاری بدسلوکی کو بھی مدنظر رکھے۔ قطر کو منتخب کرنے کے بعد بھی یہ فیفا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ مزدوروں کے ساتھ مزید زیادتی نہ ہو۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خط میں قطر کی جانب سے کفالہ نظام میں تبدیلیوں کے محرک کو واضح کیا گیا ہے۔ ان اقدامات کی وجہ فیفا کا دباؤ تھا جسے خود بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں کے دباؤ کا سامنا تھا۔ بہرحال قطر کا ان نئے قوانین کے نفاذ سے اتنا معاشی نقصان نہیں ہوگا جتنا نقصان مزدوروں سے بدسلوکی سامنے آنے پر فیفا ورلڈ کپ کی منسوخی یا شائقین کی جانب سے اس کے بائیکاٹ کی صورت میں ہوگا۔
بہرحال ان قوانین کی وجوہات جو بھی ہیں لیکن ان سے یہ امید ضرور پیدا ہوئی ہے کہ خطے میں قطر کے حریف ممالک بھی اسی قسم کی قانون سازی کرسکتے ہیں۔ اگر کھیلوں کے بین الاقوامی ایونٹ کے لیے میزبان ممالک کے انتخاب سے پہلے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو مدنظر رکھا جائے تو متحدہ عرب امارات اور خطے کے دیگر ممالک بھی اپنی سرزمین پر کام کرنے والے مزدوروں کو بہتر سہولیات اور تنخواہیں فراہم کرنے پر مجبور ہوں گے۔
فیفا ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے آنے والے غیر ملکی شائقین یہاں اچھا وقت گزارنے آئیں گے۔ ان کے اچھے وقت کو اس بات کے ادراک سے زیادہ اور کیا چیز خراب کرسکتی ہے کہ یہاں کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک روا رکھا جارہا ہے جبکہ ان کے آجر خوب دولت کما رہے ہیں۔
قطری شہری تو شاید اس سلوک کو نظر انداز کرنے کے عادی ہوچکے ہوں لیکن غیر ملکی فیفا شائقین اسے بالکل نظر انداز نہیں کریں گے۔ یہی خطرہ قطر میں تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ قطری حکومت فیفا ورلڈ کپ گزرنے کے بعد پرانے ظالمانہ نظام کو دوبارہ نافذ نہ کردے۔


مشہور خبریں۔
اقتصادی سروے میں بتایا گیا کہ تعلیم کے شعبے میں کتنا خرچ کیا گیا
?️ 10 جون 2022اسلام آباد(سچ خبریں)اقتصادی سروے پاکستان برائے سال 22-2021 میں نشاندہی کی گئی
جون
دوحہ امن معاہدے کی روح پامال، افغانستان دہشتگردوں کی آماجگاہ بن گیا
?️ 3 نومبر 2025اسلام آباد (سچ خبریں) افغانستان ایک بار پھر عالمی و علاقائی دہشت
نومبر
ایک بار پھر بائیڈن نے صرف مہلک فائرنگ سے نمٹنے کا وعدہ کیا
?️ 5 جولائی 2022سچ خبریں: شکاگو میں یوم آزادی کی تقریب میں ہلاکت خیز فائرنگ
جولائی
افغان فوج کی نابودی کی کہانی امریکیوں کی زبانی
?️ 1 مارچ 2023سچ خبریں:افغانستان کی تعمیر نو کے لیے امریکی دفتر برائے معائنہ (SIGAR)
مارچ
اقوام متحدہ کی نظر میں پناہ گزینوں کے لیے آئیڈل ملک
?️ 31 مئی 2021سچ خبریں:اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی
مئی
بڑے ہم سے وہی سیاست کرانا چاہتے ہیں جو 30 سال انہوں نے بھگتی ہے، بلاول بھٹو زرداری
?️ 7 اگست 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ
اگست
پنجاب میں گندم کی قلت نہیں ہے، سیلاب کے نام پر آٹے کی قیمت نہیں بڑھنے دیں گے‘ عظمیٰ بخاری
?️ 9 ستمبر 2025لاہور: (سچ خبریں) وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ
ستمبر
صیہونی وزیر دفاع کا دعویٰ صہیونی ماہرین کی تنقید اور مذاق کا نشانہ
?️ 13 نومبر 2024سچ خبریں:اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاتس کے حماس اور حزب اللہ پر
نومبر