سچ خبریں:یوآو گالانت کی برطرفی کے فیصلے نے بنیامین نیتن یاہو کو شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور تجزیہ کار اس اقدام کو دو عہدے داروں کے درمیان محض ایک بحران سے زیادہ اہم سمجھ رہے ہیں۔
المیادین نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق، ضروری ہے کہ یوآو گالانت کی برطرفی پر مبنی نیتن یاہو کے اس فیصلے کے حقیقی اسباب کو جانچا جائے، جس نے مقبوضہ علاقوں میں ممکنہ ہنگاموں اور سکیورٹی و سیاسی سطحوں پر اس کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے یوآو گالانت کو برطرف کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گالانت اور نیتن یاہو دفتر کے سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑپ
نیتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ گالانت کو برطرف کرنے اور یسرائیل کاتز کو ان کی جگہ مقرر کرنے کی وجہ اعتماد کی کمی ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں یہ اقدام ناکافی ہے جب صیہونی حکومت کو بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔
یہ چیلنجز داخلی اختلافات ، لبنان اور غزہ کی مزاحمت سے لے کر ایران کے ساتھ محاذ آرائی اور امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج سے اس کے دوطرفہ تعلقات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
صیہونی میڈیا نے اس فیصلے کو نیتن یاہو کے لیے سیاسی طاقت کے تحفظ کے طور پر دیکھا ہے، مگر ماہرین کے مطابق یہ محض سیاسی ہتھکنڈے سے زیادہ ہے؛ خاص طور پر جب حزب اللہ اور حماس کے رہنماؤں کے قتل کے الزامات اور حزب اللہ کے میزائل نظام کی تباہی سے نیتن یاہو نے اپنے اقتدار کو بچایا ہے۔
گالانت کی برطرفی کے اصل اسباب کی تشخیص ضروری ہے، کیونکہ یہ اقدام مقبوضہ علاقوں کی گلیوں میں ہنگامے اور سیکیورٹی و سیاسی اداروں کے درمیان کشیدگی کو بڑھا سکتا ہے۔
نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل شدت پسند اسموتریچ اور بن گویر کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جنہوں نے کابینہ میں انتہا پسندانہ پالیسیاں نافذ کی ہیں۔
گدعون ساعر کے وزارت خارجہ میں موجودگی نے کابینہ کو ایک شدت پسند دائیں بازو کی حکومت میں تبدیل کر دیا ہے۔
گالانت کی برطرفی کے پس پردہ وجوہات
یوآو گالانت نے اپنی برطرفی پر خاموشی برقرار رکھی ہے اور خود کو اسرائیل کی سلامتی کے حامی قرار دیا ہے۔
گالانت نے اپنے اختلافات کی وجوہات حریدی فوجی خدمات، اسیران کی بازیابی اور طوفان الاقصی آپریشن کی ناکامی کی تحقیقات کو قرار دیا، تاہم صیہونی حکومت کے پیچیدہ حالات مزید عوامل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
نیتن یاہو طوفان الاقصی آپریشن کو داخلی تبدیلیوں اور عظیم اسرائیل کے قیام کے لیے ایک موقع سمجھ رہے تھے۔
ان کا مقصد ہے کہ اسرائیل کو ایک ایسی حیثیت دیں جسے عالمی مصالحت کی ضرورت نہ ہو۔
نیتن یاہو نے فلسطینی حقوق پر کسی بھی مصالحت کو دھوکہ تصور کیا ہے اور صیہونی ریاست کو ایک یہودی قومیت پر مبنی ملک کے طور پر قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان اختلافات میں بین الاقوامی سطح پر درمیانہ رویہ اختیار کرنے والے طبقے کے اثرات شامل ہیں، جو عالمی حمایت کی غرض سے بین الاقوامی معاملات میں ایک سمبولک ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: صیہونی حکومت کے خلاف ایران کی کارروائی پر نیتن یاہو کے دفتر کا ردعمل
لہٰذا، گالانت اور نیتن یاہو کے درمیان اختلافات کو محض جنگی حالات میں اندرونی تنازعات کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ ان اختلافات کی جڑیں رژیم صیہونی کے مستقبل کے لیے دو متضاد نظریات میں پیوست ہیں۔