(سچ خبریں) افغانستان میں امریکہ کی ذلت امیز شکست، مغربی دنیا کے لیئے عبرت کا مقام ہے جسے انہیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے، یہ دن اور یہ تاریخ ساری دنیا کو یاد رہیں گے، تاریخ بشریت 15 اگست 2021ء کے دن کو امریکہ کی سربراہی میں نیٹو فوجی اتحاد کو ہونے والی سنگین شکست کے طور پر ہمیشہ کیلئے محفوظ رکھے گی جبکہ مغرب کے سیاسی اور فوجی رہنما ہر گز اس ذلت آمیز ناکامی کی تلخی کو بھول نہیں پائیں گے۔
تمام دنیا والے اس دن اور اس تاریخ کو یاد کرتے رہیں گے۔ اس دن "امریکی سلطنت” کی ناکامیوں اور شکست کا ایک اور مرحلہ طے پایا ہے اور ماضی میں ویت نام، کوریا، صومالیہ، عراق اور لبنان میں ہونے والی ناکامیوں میں اضافہ ہو گیا ہے، تاریخ بشریت میں رونما ہونے والے عظیم واقعات کی طرح اس حالیہ واقعے کے بارے میں بھی مفکرین، محققین اور سیاسی اور میڈیا تجزیہ کار مختلف گروہوں میں بٹ چکے ہیں۔
جب ہم افغانستان میں دنیا کے سب سے بڑے فوجی اتحاد کی شکست کا مشاہدہ کرتے ہیں تو سب سے پہلی سطح پر انسان کے اندر جو احساس پیدا ہوتا ہے وہ دل کی ٹھنڈک اور خوشی کی گہری لہر کی صورت میں ہے، لیکن جب ہم دوسرے پہلو پر توجہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ گذشتہ بیس برس سے افغانستان کی اسلامی سرزمین مغربی فوجی اتحاد نیٹو کے چنگل میں رہا اور طرح طرح کے ظلم و ستم کا شکار رہا تو انسان شدید دکھ محسوس کرتا ہے۔
اتوار 15 اگست کی صبح سے ہی مغربی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ عرب اور اسلامی میڈیا نے بھی افغانستان سے امریکہ کی ذلت آمیز فوجی پسپائی کی تصاویر اور ویڈیوز دکھانا شروع کر دی تھیں، یہ تصاویر اور ویڈیوز کابل کے گرین ایریا سے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے امریکی سفارتکاروں کے فرار پر مبنی تھیں۔
اگرچہ کابل کا گرین ایریا جہاں امریکہ سمیت مغربی ممالک کے سفارتخانے موجود ہیں، کابل ایئرپورٹ سے بہت ہی کم فاصلے پر واقع ہے لیکن بڑی تعداد میں فوجی ہیلی کاپٹر مسلسل مغربی سفارت خانوں کے تمام عملے کو ایئرپورٹ تک پہنچانے میں مصروف تھے۔ ان سفارتکاروں نے چھوٹے چھوٹے بیگ اٹھا رکھے تھے اور انتہائی عجلت میں بھاگ رہے تھے جس کی بنیادی وجہ کابل کی ہر سمت سے طالبان کی تیزی سے جاری پیشقدمی تھی۔ کابل ایئرپورٹ سے فرار کرنے والے مغربی اہلکاروں میں سب سے آخری فرد امریکی سفیر تھا۔ اس سے چند گھنٹے پہلے امریکیوں کا وفادار دوست اور افغان صدر اشرف غنی اپنے اعلی سطحی حکومتی عہدیداروں کے ہمراہ ملک سے بھاگ چکا تھا۔ اگرچہ افغان صدر نے ایک دن پہلے ہی پرجوش تقریر میں یہ دعوی کیا تھا کہ ہر گز ملک سے نہیں بھاگے گا لیکن عرب اور یمنی سیاستدانوں کی طرح فرار کو ترجیح دی۔
افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی یہ عبرتناک شکست بہت سے سبق لئے ہوئے ہے۔ پہلا سبق امریکی صدر جو بائیڈن کے اس وعدے میں پوشیدہ ہے جو انہوں نے امریکیوں سے تعاون کرنے والے مترجمین کو دیا تھا کہ انہیں افغانستان سے نکال کر دیگر ممالک منتقل کیا جائے گا اور انہیں امریکہ میں رہنے کی اجازت دی جائے گی۔ اس میں ایسے تمام افراد کیلئے درس عبرت ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں امریکی حکام کے ایجنٹس کے طور پر سرگرم عمل ہیں۔ وہ سبق یہ ہے کہ امریکہ سے تعاون کی صورت میں آپ اپنے ملک میں منفور ہو جائیں گے اور امریکی انخلاء کی صورت میں اس کے ساتھ ساتھ ملک سے فرار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یمن میں امریکی ایجنٹس کیلئے بھی یہ درس عبرت ہے۔
دوسرا سبق یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی حریت پسند قوم اور سرزمین کسی صورت بیرونی جارح قوت کو برداشت نہیں کرتی چاہے وہ کتنی ہی بڑی فوجی اور سیاسی طاقت بھی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھاری مالی اور جانی نقصان برداشت کرنے کے بعد افغانستان میں امریکی، برطانوی، جرمن، فرانسیسی، اٹالین سمیت نیٹو فوجی اڈے خالی کئے جا رہے ہیں۔ یہ تمام تلخ واقعات افغانستان اور دیگر اسلامی ممالک پر حملہ ور ہونے والی جارح قوتوں کے ذہن میں باقی رہیں گے اور ہمیشگی درد کے طور پر وہ اسے محسوس کرتے رہیں گے۔ تیسرا سبق نائن الیون کی صورت میں 2001ء سے شروع ہونے والی عظیم امریکی اور مغربی سازش کی ناکامی ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر فوجی جارحیت کی اور شہریوں کے خلاف جنگی جرائم انجام دیے۔
افغانستان میں امریکہ اور مغربی طاقتوں کی ذلت آمیز شکست کا چوتھا سبق مغرب کی متکبرانہ سوچ اور طرز فکر میں مضمر ہے۔ مغربی طاقتیں دنیا کی آزاد قوموں کو اپنا غلام بنانے کیلئے طاقت کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ نیٹو دنیا کا جدید ترین فوجی سازوسامان رکھنے کے باوجود ہزاروں فوجی گنوا بیٹھا اور آخرکار انتہائی ذلت کے عالم میں افغانستان سے بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔ پوری تاریخ میں جارح قوتوں کا انجام یہی ہوا ہے۔
دوسری طرف افغان عوام نے جو آزادی حاصل کی ہے وہ انتہائی قیمتی ہے۔ اب اندرونی سطح پر سماجی امور کی اصلاح اور علاقائی سطح پر ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں بہتری اور عالمی سطح پر درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنا طالبان کی ذمہ داری ہے۔ انہیں بھی جان لینا چاہئے کہ تمام قومی گروہوں کو شریک کر کے ہی مستحکم نظام تشکیل دے سکتے ہیں جبکہ اقتدار کو مکمل طور پر اپنے پاس رکھنے کی ہوس تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔