(سچ خبریں) مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کی زندگی کا ایک طویل عرصہ قید و بند میں گزرا، وہ ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف تھے جنہوں نے قید کے دوران دو جلدوں پر مشتمل ڈائری روداد قفس بھی لکھی۔
انہوں نے سیاسی، سماجی اور مذہبی موضوعات اور مسائل پر سیکڑوں کتابچے اور بڑی تعداد میں مضامین تحریر کیے، وہ ایک مصنف کے علاوہ شعلہ بیان مقرر اور مبلغ بھی تھے، اپنے مداحوں کے نزدیک اُن کی شخصیت گوناگوں اور کثیر جہتی تھی۔
سید علی شاہ گیلانی کا شمار کشمیر کی مزاحمتی تحریک کے بزرگ قائدین میں ہوتا تھا جنہوں نے اپنے سخت گیر سیاسی نظریات کی وجہ سے زندگی کا ایک بڑا حصہ جیل میں گزارا۔
سید علی شاہ گیلانی 29 ستمبر 1929 کو ضلع بارہمولہ میں جھیل وُلر کے کنارے آباد زوری منز گاؤں کے ایک متمول سید گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، انہوں نے ابتدائی تعلیم سوپور قصبے میں حاصل کی اور پھر لاہور کے اورئنٹل کالج سے غیر سائنسی علوم میں ڈگری حاصل کی۔
سید علی شاہ گیلانی نے اپنی سیاسی زندگی کا باضابطہ آغاز 1950 میں کشمیریوں کی تحریکِ مزاحمت سے عملی طور پر جڑنے کے ساتھ کیا تھا۔
وہ مشہور عالمِ دین، مفسرِ قرآن اور جماعتِ اسلامی کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی کو اپنا اتالیق مانتے تھے، وہ خود جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کے ایک رکن بھی تھے جو بہت جلد اس کے چوٹی کے رہنماؤں میں شمار ہونے لگے، کشمیریوں کی تحریکِ مزاحمت کے دوران انہیں پہلی بار 1964 میں قید کیا گیا۔
تاہم انہوں نے کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے جماعت اسلامی کی بدلتی ہوئی سوچ اور اپروچ سے اتفاق نہ کرتے ہوئے 2003 میں اس سے علیحدگی اختیار کی اور پھر ‘تحریکِ حریت جموں و کشمیر’ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔
لاہور میں قیام کے دوران وہ علامہ اقبال کی شاعری سے بے حد متاثر ہوئے اور انہوں نے علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے ترجمے پر مشتمل تین کتابوں سمیت ایک درجن سے زائد کتابیں بھن تصنیف کیں جبکہ حسن خطابت کی وجہ سے جماعت اسلامی کے اہم رہنما تصور کیے جانے لگے اور انہوں نے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر 1972، 1977 اور 1987 میں الیکشن جیتا اور کشمیر اسمبلی میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے وکالت شروع کردی۔
بعد ازاں انہوں نے تحریک آزادی کی حمایت کا اعلان کردیا اور مسلح تحریک کی کھل کر حمایت کی جبکہ انہوں نے کشمیر کو پاکستان کا قدرتی حصہ قرار دے کر مسئلہ کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا۔ وہ مسئلہ کشمیر کو اسلامی مسئلہ قرار دیتے تھے اور اسی بنیاد پر وہ حریت سے علیحدہ ہوگئے تھے اور بعد ازاں حریت کانفرنس کے سربراہ بن گئے تھے۔
سید علی شاہ گیلانی اپنے سیاسی سفر میں اکثر جیل جاتے رہے ہیں اور انہوں نے اپنی عمر کی تقریباً ایک دہائی قید خانوں میں ہی گزاری ہے اور جدوجہد آزادی کشمیر کے اہم ستون تسلیم کیے جانے والے سید علی گیلانی 92 سال کی عمر میں نظر بندی کے دوران انتقال کر گئے ہیں جن کی تدفین آج علی الصبح حکام کی جانب سے کردی گئی ہے جبکہ ان کے انتقال پر مختلف حلقوں کی جانب سے گہرے غم اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے علی گیلانی کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی کشمیری عوام کی حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد میں گزاری ہے اور وہ بھارتی ریاست کی جانب سے قید اور تشدد سہنے کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے رہے، وزیر اعظم عمران خان نے ان کی وفات پر سرکاری سطح پر یوم سوگ منانے کا اعلان کیا ہے جبکہ اس دوران پاکستانی پرچم سرنگوں رہے گا۔
دوسری جانب آزاد کشمیر کی حکومت نے بھی حریت رہنما سید علی گیلانی کے انتقال پر وادی میں 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے جبکہ ترجمان وزیر اعظم آزاد کشمیر کے مطابق وادی میں 1 روزہ عام تعطیل ہوگی اور وادی کے تمام ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔
وزیر اعظم آزاد کشمیر عبدالقیوم نیازی کا سید علی گیلانی کے انتقال پر کہنا تھا کہ انتقال کا سن کر دل رنجیدہ ہے، سید علی گیلانی تحریکِ آزادی کشمیر کے روحِ رواں تھے اور انہوں نے بھارتی ظلم و جبر کا دلیری سے مقابلہ کیا، ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔