گہری دراڑیں؛ صیہونیوں کی سیاسی جنگ سماجی میدان میں

سیاسی

🗓️

سچ خبریں:صیہونی تارکین وطن کی جانب سے صیہونی سیاسی میدان میں مذہبی لوگوں کے میں آنے کے خطرے کو محسوس کرنے کے بعد، اب سماجی میدان میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں، جو عنقریب اس حکومت کے تشخص اور ثقافتی خلیج کے گہرے ہونے کو ظاہر کرتے ہیں۔

صیہونی حکومت میں سیاسی استحکام کا فقدان ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے 2018 سے اس حکومت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ،اس عدم استحکام کا نتیجہ گزشتہ 4 سالوں میں 5 انتخابات کا انعقاد ہے، اس کے بعد بھی اس غیر قانونی ریاست میں ایک مستحکم کابینہ نہیں بن سکی جو ایک سال سے زیادہ اقتدار میں رہ سکے۔

بنیامین نیتن یاہو کی طرف سے حال ہی میں جو کابینہ تشکیل دی گئی ہے وہ ایک انتہاپسند کابینہ ہے جو انتہائی دائیں بازو اور مذہبی انتہا پسندوں پر مشتمل ہے،موجودہ کابینہ اس طرح آگے بڑھی ہے کہ صہیونی سیاسی عدم استحکام اس ریاست کے معاشرے میں منتقل ہو گیا ہے جو سماجی میدان میں ایک سنگین بحران بنتا جا رہا ہے۔

صیہونی حکومت میں سیاسی عدم استحکام کی جڑیں
صیہونی حکومت میں سیاسی عدم استحکام کی جڑوں کا تجزیہ بنیادی اور عارضی عوامل کی دو اقسام میں کیا جا سکتا ہے: بنیادی عوامل اور عارضی عوامل۔
1۔ بنیادی عوامل
بنیادی عوامل وہ ہیں جو صیہونی حکومت کے سیاسی ڈھانچے سے پیدا ہوتے ہیں۔
الف: پارلیمانی نظام
صیہونی حکومت میں سیاسی عدم استحکام کی سب سے اہم وجہ اس حکومت میں پارلیمانی انتخابی نظام ہے،اس نظام میں پارلیمنٹ کے ارکان کا انتخاب صرف پارٹی لسٹ ووٹنگ کے ذریعے کیا جاتا ہےنہ کہ افراد کے براہ راست انتخاب کے ذریعے، انتخابات کے بعد اگر کوئی ایک پارٹی پارلیمنٹ (Knesset) میں اکثریت حاصل کر لیتی ہے یا اگر Knesset میں سیٹوں کی اکثریت والی متعدد جماعتیں کابینہ کی تشکیل کے لیے اتحاد بناتی ہیں تو کابینہ تشکیل دی جا سکتی ہے، اس نظام میں اگر ان دو صورتوں میں سے کوئی ایک نہ ہو تو کابینہ نہیں بن پائے گی، صیہونی پارٹیوں کی تعداد میں اضافے اور ان کے درمیان ووٹوں کی تقسیم سے کسی ایک جماعت یا جماعتوں کے اتحاد کو اکثریت حاصل کرنے کا موقع کم ملا ہے،یہی وجہ ہے کہ 5 انتخابات میں 2 کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور کابینہ کی تشکیل نہیں ہوئی جبکہ دیگر 3 انتخابات میں بھی کابینہ بہت کمزور رہی۔

2. جماعتوں کی کثرت
صیہونی حکومت میں پارٹیوں کی کثرت اور تعداد پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے نیز اس جماعتی کثرت کو ان کی سیاسی طرز حکمرانی کی جمہوری نوعیت کے اہم اشارے میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے لیکن جماعتوں کی اس کثرت نے صیہونی حکومت کو سیاسی استحکام حاصل کرنے میں ناکام بنا دیا ہے، کیونکہ جوں جوں جماعتوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے، ہر فریق کے مختلف اہداف اور مطالبات کے مطابق ان کے درمیان مشترکہ نقطہ پیدا کرنا کم ہوتا جاتا ہے، دوسری طرف ان جماعتوں کے مفادات کا ٹکراؤ اور ان میں بے شمار بلیک میلز کے باعث روز بروز اتحاد بنانا مشکل ہو جاتا ہے،تاہم پارٹیوں کی یہ کثرت پارٹیوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ حالیہ کابینہ کی تشکیل کا باعث بنی ہے ، یہ مسئلہ اس کے تیزی سے زوال کا سبب بنتا جا رہا ہے کیونکہ بڑی تعداد میں پارٹیوں میں سیٹوں کی تقسیم کی وجہ سے اگر ان میں سے کوئی ایک بھی الگ ہو جاتی ہے تو کابینہ ٹوٹ جائے گی۔

3. بڑی جماعتوں کی تباہی
صیہونی حکومت میں عدم استحکام کا ایک اور بڑا سبب بڑی جماعتوں کی عدم موجودگی ہے، اس وقت صیہونی حکومت میں کوئی بڑی پارٹی ایسی نہیں ہے جس کے پاس Knesset کی نصف نشستیں ہوں، صیہونی حکومت کی حالیہ کنیسٹس میں تقریباً 9 سے 10 جماعتوں نے شرکت کی ہے اور پارلیمنٹ کی نشستیں ان جماعتوں کے درمیان تقسیم کردی گئی ہیں جبکہ بڑی تعداد میں نشستوں کے ساتھ بڑی جماعتوں کی عدم موجودگی نے ایک چھوٹی پارٹی کے لیے کابینہ کو چھوڑ کر کنیسٹ کو تحلیل کر کے نئے انتخابات کا انعقاد ممکن بنا دیا ہے،صیہونی حکومت کی سابقہ کابینہ میں ایک جماعت (یمیناہ) کے دو افراد کے جانے سے کابینہ گر گئی، کنیسٹ تحلیل ہو گئی اور نئے انتخابات کرائے گئے۔

عارضی اسباب
بنیادی عوامل کے علاوہ ایسے عوامل بھی ہیں جو موجودہ مرحلے کے لیے مخصوص ہیں، یہ عوامل نہ ماضی میں اس صورت میں تھے اور نہ ہی مستقبل میں ہوں گے۔

1. نیتن یاہو کی شخصیت
صیہونی حکومت کی موجودہ سیاسی عدم استحکام کا سب سے اہم عارضی عنصر بنیامین نیتن یاہو ہے، پچھلی دہائی کے دوران اپنی مسلسل یکطرفہ پسندی کی وجہ سے نیتن یاہو نے بہت سے دائیں بازو اور لیکوڈ پارٹی کے ارکان کو دائیں بازو کے گروپ سے الگ کیا ہے جنہوں نے اس وقت صیہونی حکومت کی Knesset میں کابینہ کی مخالفت کے نام سے ایک اتحاد تشکیل پایا ہے ،یہ تمام وہ لوگ ہیں جو کبھی نیتن یاہو کے شانہ بشانہ دائیں بازو میں تھے لیکن نیتن یاہو کے یکطرفہ رویے کی وجہ سے وہ اس دھڑے سے الگ ہو چکے ہیں اور اب اس کے مقابلے میں ہیں ہے،اس اپوزیشن کا واحد مشترک عنصر نیتن یاہو کی مخالفت اور اسے اقتدار پر قبضہ کرنے سے روکنا ہے، Avigdor Lieberman، Naftali Bennett، Benny Gantz، Gideon Tsar، اور Gadi Eisenkot ، اس اتحاد میں شامل ان لوگوں میں سے ہیں۔

2۔ ایک ممتاز اور بااثر سیاسی شخصیت کا فقدان
صیہونی حکومت میں سیاسی عدم استحکام کا دوسرا عارضی عنصر فلسطین پر قبضے کے پہلے عشروں کی طرح ایک بااثر اور ممتاز شخصیت (کرشماتی) کی عدم موجودگی ہے،فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے ابتدائی عشروں میں صیہونی حکومت کے سیاسی میدان میں بہت سی شخصیات موجود تھیں جن میں سے ہر ایک سیاسی میدان میں تبدیلی پیدا کر سکتی تھی لیکن موجودہ دور میں سیاسی میدان میں ایسی شخصیات موجود نہیں ہیں۔ صیہونی حکومت کا شاید واحد شخص جو صہیونی برادری اور اس ریاست کے سیاسی حالات پر اثر انداز ہو سکتا ہے، نیتن یاہو ہے۔ جس میں یہ خصوصیت ہو سکتی ہے لیکن وہ اپنی یکطرفہ روش سے صیہونی حکومت کے سیاسی میدان میں بھی اتحاد مخالف بن چکا ہے۔

سیکولر اور مذہبی افراد کے درمیان جنگ
اس تجزیہ کے ساتھ جو اوپر بیان کیا گیا ہے، متذکرہ عوامل کے زیر اثر نیتن یاہو الگ تھلگ ہو چکا ہے، حالیہ انتخابات جیتنے کے لیے وہ انتہائی دائیں بازو اور مذہبی انتہا پسندوں کے پاس گیا تاکہ وہ ان کی مدد سے اقتدار میں آسکے،تاہم نیتن یاہو” کے اس اقدام کی وجہ سے نئی کابینہ میں آدھی کابینہ دائیں بازو اور باقی آدھی مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھ میں آگئی،صیہونی حکومت میں پہلی بار ایسا ہوا لیکن نتیجہ سیکولرز اور مذہبی افراد کے درمیان شدید جنگ کی صورت میں نکلا، یاد رہے کہ مذہبی اور سیکولرز کے درمیان تنازع ایک پرانا اور سنگین تنازع ہے جو فلسطین پر قبضے کے بعد سے موجود ہے لیکن چونکہ سیکولرز کی اکثریت تھی اس لیے یہ ابھر کر سامنے نہیں آیا، تاہم اس وقت نیتن یاہو نے جو کیا اس کا نتیجہ انتہائی دائیں بازو اور مذہبی انتہا پسندوں کے درمیان مقابلے کے صورت میں سامنے آیا اور اقتدار کے حصول کا نتیجہ وہ اختلافات ہیں جو آج صیہونی حکومت کے سیاسی میدان میں سیاسی عدم استحکام کی صورت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

تنازعات کو سماجی میدان میں منتقل کرنا
صیہونی حکومت کی نئی کابینہ کی تشکیل کے بعد سیکولرز ان انتہا پسندوں کے عروج کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو اپنی انتہا پسندی کی وجہ سے صہیونی سماجی اور بین الاقوامی میدان دونوں میں نفرت کا شکار ہیں، اب انہیں یہ خطرہ محسوس ہوا ہے کہ اس عمل کے جاری رہنے سے صیہونی سیکولرز کی موجودگی میں مشکلات پیدا ہوں گی، درحقیقت صیہونی مذہبی افراد کے اقتدار میں آنے نے اس ریاست کے سماجی میدان میں ایک قسم کی تشویش پیدا کردی اور سیاسی میدان کی دو قطبی حیثیت کو سماجی میدان تک پہنچا دیا ہے جس کا نتیجہ مظاہروں کی صورت میں عوام کا سڑکوں پر آنا ہے، مقبوضہ علاقوں میں 100000 افراد کا مظاہرہ صیہونی حکومت میں سیکولر-مذہبی دو قطبی پن کا مظہر ہے، جو اس حکومت میں شناخت اور ثقافتی خلیج کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہےجس نے ایک پرانے اور سنگین مسئلے کو مرکزی مسئلہ میں تبدیل کر دیا ہے، صیہونی حکومت کا آج کا مسئلہ اور موجودہ حالات کے ساتھ سماجی خلیج کو مزید گہرا اور بڑھانے کی طرف گامزن ہے۔

مشہور خبریں۔

صیہونی حکومت کی مراکش کے ساتھ مشترکہ مشقوں میں شرکت

🗓️ 22 جون 2022سچ خبریں:     عبوری صیہونی حکومت جس نے مراکش کے ساتھ معمول

کریتی سینن کا اظہار خیال، اداکارہ نہ ہوتی تو کیا ہوتی؟

🗓️ 5 دسمبر 2021ممبئی (سچ خبریں) بالی ووڈ کی خوبرو اداکارہ کریتی سینن نے اپنے

جمہوریت کے نام پر قتل و غارت

🗓️ 19 جون 2023سچ خبریں:شام کے صدر کی خصوصی مشیر نے امریکہ اور مغربی ممالک

فلسطینی قیدیوں کے فرارہونے سے تل ابیب کی نااہلی ظاہر

🗓️ 10 فروری 2022سچ خبریں:   اسرائیل کے داخلی سلامتی وزیر عمر بارلو نے عوفر جیل

جنرل سلیمانی سے متعلق کلیپ کا ٹوئٹر پر خوف وہراس

🗓️ 14 جنوری 2022سچ خبریں:جنرل سلیمانی سے متعلق ویڈیو جاری ہونے کے بعد ٹوئٹر نے

وزیر اعظم کی صدارت میں انٹیلیجنس کی نئی کمیٹی کا افتتاح

🗓️ 24 جون 2021اسلام آباد (سچ خبریں) وزیر اعظم عمران خان نے انٹر سروسز انٹیلیجنس

آئی ایم ایف نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے اقدامات ناگزیر قرار دے دیئے

🗓️ 27 مئی 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) آئی ایم ایف  نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے

2024 کے صدارتی انتخابات میں ریپبلکن کی ہو گی: پنس

🗓️ 9 نومبر 2021سچ خبریں : خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سابق امریکی نائب صدر ڈونلڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے