اسلام آباد(سچ خبریں) کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ہزاروں کارکنان پر مشتمل ریلی کامونکی سے نکل کر گوجرانوالہ شہر کے قریب پہنچ گئی جس کے باعث اطراف کے علاقوں میں کاروبارِ زندگی معطل ہوگیا جی ٹی روڈ پر تقریباً 4 ہزار کارکنان بڑے ٹرکوں اور بسوں میں اشیائے ضروریہ کے ہمراہ سفر کررہے ہیں جبکہ ہاتھوں میں لاٹھیاں لیے کارکنان انہیں تمام اطراف سے تحفظ فراہم کررہے ہیں۔امکان ہے کہ قلعہ چند بائی پاس سے گزرنے کے بعد ریلی اسلام آباد کی جانب اپنا سفر جاری رکھے گی۔
قبل ازیں بدھ کو ٹی ایل پی مظاہرین نے ضلع گوجرانوالہ میں دونوں اطراف سے جی ٹی روڈ بلاک کردیا تھا کہ جس سے مسافروں اور مقامی افراد کو آمد و رفت میں شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ تحصیل کامونکی سے جہلم تک موبائل فون سروسز بھی 24 گھنٹوں کے لیے معطل رہیں۔
غیر یقینی صورتحال کے باعث جی ٹی روڈ کے ساتھ موجود تعلیمی ادارے بھی بند کردیے گئے۔دوسری جانب رینجرز اور پولیس اہلکاروں نے دریائے چناب کے نزدیک وزیرآباد کی سرحد پر پوزیشنز سنبھال لی ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق سیکیورٹی حکام کا ٹی ایل پی کارکنان کو گوجرانوالہ شہر کے بجائے وزیرآباد چناب کے علاقے میں روکنے کا ارادہ ہے. صورتحال کے پیشِ نظر پاکستان ریلوے نے اعلان کیا کہ لاہور اور راولپنڈی کے درمیان شام 4 بج کر 30 منٹ پر چلنے والی سبک خرام اور شام 6 بجے چلنے والی اسلام آباد ایکسپریس اور رات 12بج کر30 منٹ پر چلنے والی راول ایکسپریس کو بھی دونوں اطراف سے آج کے لیے معطل کیا گیا ہے۔
اسی طرح پشاور سے کوئٹہ جانے والی جعفر ایکسپریس کو پشاور اور لاہور کے درمیان آج کے روز معطل کردیا گیا ہے، گرین لائن کو راولپنڈی اور لاہور کے درمیان آج کے روز معطل کیاگیا ہے۔ترجمان ریلوے کے مطابق تیزگام ایکسپریس کو بھی آج کے روز راولپنڈی اور لاہور کے درمیان معطل کیاگیا ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف نے ٹی ایل پی کی ریلی سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے حکومتی طریقے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’وفاقی وزرا موجودہ صورتحال پر متضاد بیانات دے رہے ہیں۔
انہوں نے ایک وزیر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان 2020 میں ٹی ایل پی کے ساتھ ہوئے معاہدے سے لاعلم تھے ان کا کہنا تھا کہ سراسر افراتفری اور قیادت کا فقدان ہے جبکہ حکومتی مشینری بالکل بے خبر ہے، یہ عمران خان کا طرزِ حکمرانی ہے۔
تاہم ان کے اس بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ شہباز شریف الجھن کا شکار شخص ہیں انہوں نے جس شخص کی بات کی ہے وہ وفاقی وزیر نہیں ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی زیرقیادت حکومت میں قطعی طور پر کوئی الجھن نہیں ہے کیونکہ کل کابینہ کے فیصلے نے ٹی ایل پی کے بارے میں پوزیشن کو واضح کر دیا ہے، لگتا ہے آپ کی معلومات میں بڑے پیمانے پر کنفیوژن برقرار ہے۔
یہ پیش رفت حکومت کی جانب سے ٹی ایل پی کو طرح سے کچلنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ فوج، رینجرز اور پولیس لانگ مارچ کے شرکا کو وفاقی دارالحکومت میں داخل ہونے سے روکیں گے۔
یہ فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا جس کے بعد صوبے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پنجاب میں رینجرز کو 60 روز کے لیے طلب کر لیا گیا۔
حکومت نے واضح طور پر اعلان کر چکی ہے کہ وہ پاکستان میں فرانسیسی سفارت خانے کو بند کرنے کے ٹی ایل پی کے مطالبے کو پورا نہیں کر سکتی، ساتھ ہی انکشاف کیا تھا کہ ملک میں فرانس کا کوئی سفیر نہیں ہے۔
اس کے علاوہ کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ ٹی ایل پی کو عسکریت پسند تنظیم قرار دیا جائے گا اور اسے کچل دیا جائے گا جیسا کہ س طرح کے دیگر گروپس کو ختم کر دیا گیا ہے۔